بہارِبے نم و نوروز ہی نظر آئے
نظر کی شاخ پہ کھلتی کمی نظر آئے

تہہِ چراغ جہاں بجھ گئے ستارے بھی
وہ شہرِ باد پسِ روشنی نظر آئے

دْرونِ سنگ کوئی باغ ہو اْجلتا ہْوا
سرِسراب کوئی ماہ لبی نظر آئے

سپاہِ خاک خراباں کی کِشت میں حیراں
گْلِ مْراد کی لالہ رخی نظر آئے

ہے کوئی خوابِ لطافت کہ جسکے پہلو میں
سَحَر نصیب یہ عالم، تہی نظر آئے؟

صدا جو مسخ ہوئی ہے سنائی دینے لگے
جو آنکھ گْم کدے میں کھو گئی، نظر آئے

کٹے پہاڑ کے سینے میں وحشتیں جاگیں
اور انکے سائے میں ویراں شبی نظر آئے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے