موسمِ خوشگوار کا عالم
گویا نقش و نگار کا عالم
اِک طرف آہ بے رُخی تیری
اک طرف انتظار کا عالم
اُف تری بے نیازیوں کے طفیل
مرے صبر و قرار کا عالم
صلہِ محنتِ محزُوں
دیدہِ اشکبار کا عالم
کاش میرے لیے بھی کچھ ہوتا
صبح دم نو بہار کا عالم
وہ میری بیقراریوں میں نہاں
حُسنِ عالی وقار کا عالم
تجھ سے شکوہ نہیں مجھے کوئی
ہے یہی اِصطبار کا عالم
ترے رحم وکرم سے وابستہ
دلِ امیدوار کا عالم
ہائے لیکن یہ محفلِ ہستی
ہائے یہ اضطرار کا عالم
مری دنیا پہ کیوں مسلّط ہے
آج سرمایہ دار کا عالم

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے