میں کون ہوں؟کیا ہوں۔۔۔
یہ کیسی الجھن ہے۔۔۔
جسیسلھجا نہیں سکتی۔۔۔
میں سمندر ہوں تو لہروں میں بہہ کیوں نہیں جاتی
میں جنوں ہوں تودیوانگی سر کیوں نہیں چڑھتی
میں روح ہوں تو جسم سے نجات کیوں نہیں پاتی
میں شام ہوں تو سائے میں ڈھل کیوں نہیں جاتی
میں انسان ہوں تو ڈرتی ہوں
انسانی روپ میں چھپے ان بھیڑیوں سے
مجھے قبروں سے ڈر نہیں لگتا۔۔۔
میں صحرا کی ویرانی سے ڈرتی ہوں
زیست کی ساری حقیقتوں سے ڈرتی ہوں
کبھی جو آئینہ دیکھوں تو روح نظر آتی ہے مجھ کو
کبھی ہنستی ہوں کبھی روتی ہوں۔۔۔
کبھی بے سبب اداس ہوتی ہوں۔۔۔۔
میں دلوں میں چھپی نفرت سے ڈرتی ہوں
چہروں پہ لگائے پھر تے ہیں جو اکثر
ان نقابوں سے ڈرتی ہوں۔۔۔۔
کبھی سوچتی ہوں بے تحاشا تو سوچے ہی چلی جاتی ہوں
کبھی لکھتی ہوں کچھ ایسے کہ روح تک گھائل ہو جائے
مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے

کہ سارے کہ سارے لفظ کھو جائیں
بناوٹ اوردکھاوا ان کو نگل جائے
میں جذبوں اور خوابوں کو بہت سنبھال کے رکھتی ہوں
پھر ان سے دھاگے لے لے کر خود کو پروتی ہوں
میں گر روشنی نہیں تو سیاہ رات کی تاریکی بھی نہیں ہوں
میں اک ایسی بہتی ندی ہوں
کہ جس کے کنارے۔۔۔۔۔
کئی گیت کئی نغمے۔۔۔۔
مدھر تانوں میں لپٹے ہیں۔۔۔۔
میں گر شام کا سایہ تو دن کا اجالا ہوں
میں زندگی کے سمندر میں۔۔۔۔۔
تمام لہروں کو چھوتی ہوں۔۔۔۔۔
میں جو خواب بنْتی ہوں۔۔۔۔۔
پھر انہی خوابوں کو جیتی ہوں
کہ میں اک زندہ حقیقت ہوں۔۔۔۔
حقیقت کو پینٹ کرتی ہوں۔۔۔۔
میں سراپا موم ہوں۔۔۔۔
جو ہر سانچے میں ڈھل جائے
کہ میں اک عام سی عورت
اک عام سی عورت ہوں!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے