وحشتوں عذابوں سے یوں نکال جاتا ہے
روز میری آنکھوں میں خواب ڈال جاتا ہے

شام کے اُترتے ہی میں دیئے جلاتا ہوں
وہ دیئے بجھاتا ہے مجھ کو ٹال جاتا ہے

میں کچھ جواز لاتا ہوں رمز کچھ بناتا ہوں
دل کے ہجر سے اکثر اک وصال جاتا ہے

جیسے کوئی جادو ہے یا تمہاری خوشبو ہے
جس سے میرے ہونے کا یہ وبال جاتا ہے

تم مرادؔ سے مل کر زندگی سے مل آؤ
روز دُکھ کہانی میں رنگ ڈال جاتا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے