دیکھا نہیں ہے آنکھ نے کچھ بھی سوائے خواب
اور خواب بھی نئے نہیں دیکھے دکھائے خواب

راتوں کی خاک چھاننے والوں سے تجھ کو کیا
تیرے تو پورے ہو گئے بیٹھے بٹھائے خواب

تعبیر وہ بھی بانٹتے پھرتے ہیں شہر میں
دیکھی نہیں جنہوں نے کبھی شکل ہائے خواب

پیشِ نظر ہے تیرگی اور ایسی تیرگی
منظر تو دور آنکھ سے دیکھا نہ جائے خواب

رستے ہمارے! حاجتوں نے کر دیے جدا
رختِ سفر میں رہ گئے رکھے رکھائے خواب

ٹوٹے تو ٹو ٹنے کا بھی احساس کب ہوا
کِس احتیاط سے مجھے اس نے دکھائے خواب

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے