میں جو بھی تھا برا نہ تھا ! میں ضم ہوا برا ہوا
میں دور تھا تو ٹھیک تھا ! بہم ہوا برا ہوا

عجیب تھا کتابِ زندگی کا بابِ دوسرا
جو زعم اپنی ذات پر تھا ! کم ہوا برا ہوا

میں ایک بار دل کی بات مان کے جو چپ ہوا
وہ ایک بار کیا جو دم بہ دم ہوا برا ہوا

میں رنگ اور ذات میں جو بٹ گیا برا ہوا
عرب ہوا برا ہوا ! عجم ہوا برا ہوا

جو زیر لب قلم نہ آسکا اگر تو کربِ جاں
کسی بھی ذات کا اگر الم ہوا برا ہوا

یہ تیری میری عمر کی حدود پر کھڑا ہے جو
یہ تیری میری سوچ پر رقم ہوا برا ہوا

ہر ایک دور میں ہوا ہے سچ کا سر بلند ‘ پر
ہر ایک دور میں جو سر قلم ہوا برا ہوا

یہ دیکھو آسمان پر بجھا سا ایک تارا ہے
بچھڑ گیا ہے کارواں ! بے دم ہوا برا ہوا

جہاں خدا اور آدمی کے درمیاں کوئی رہا
وہاں خدا خدا نہیں ! صنم ہوا برا ہوا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے