قفس کے بُلبل کی آرزو ہے
کھلی فضاؤں میں سانس لینا
بلند وبالا عمارتوں سے بہت بلند تر
اُن آسمانوں کو چھو کے آنا
اُن لہلہاتے سنہرے کھیتوں سے
رزق لینا
اُس ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کو چھونا اور
گلے لگانا
درختوں پہ تنکا تنکا جوڑے
گھونسلے بنانا
صبح شبنم کی تشنگی کو
گھونٹ گھونٹوں سے یوں مٹانا
کہ اس میں شیرین زندگی ہے
کہ اس چہچہاہٹ میں بندگی ہے
اے میرے مالک
جو ایک پل کو قفس سے نکلوں
اُن آسمانوں کو چُھوکے آؤں
کُھلی فضاؤں میں پر پھیلاؤں
سمندروں کے شفاف پانی سے
باوضو ہوکے چہچہاؤں
فلک جن نغموں سے جھوم جائے
میں ایسی خوشیوں کے گیت گاؤ
میری دعائیں اثر دکھائیں
قفس میں مجھ کو نہ موت آئے
کہ قید سے جو ملے رہائی
مد توں کی اسیر زادی
زمین کو چوموں
فضاؤں کو بس گلے لگاؤں
اسی گھڑی کو
یہ سانسیں کم ہوں
آنکھیں بند ہوں
او رپرواز میں کمی ہو
یہی فخر مجھے رہے ہمیشہ
کہ قید میں نہ یہ موت آئی
میں قید اِک حقیر پنچھی
میری التجاء بھی کبھی ہو پوری
قفس نہیں میرا آشیانہ
قفس میں بُلبل
تمہارا قیدی۔۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے