برادر عزیز، ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب

                اسلام و علیکم!۔

                 تقریباً دو سال میں نے آپ کی ارسال کردہ کتاب ”کارل مارکس کی داستان حیات“ کا مطالعہ شروع کیا تھا۔ میں نے اس کتاب کے بہ مشکل 93صفحات پڑھے تھے کہ مطالعہ ملتوی کرنا پڑا۔ اتنی مشکل کتاب کا ترجمہ کرنے پر آپ کی ہمت کو داد تو ضرور دینا پڑے گی لیکن اس کاوش کے باوجود بھی یہ ترجمہ کافی مشکل ہے حتیٰ کہ پڑھے لکھے قاری کے لیے بھی۔ جس کی بڑی وجہ کا  آپ نے خود اپنے دیباچہ میں اظہار اِن الفاظ میں کیا ہے ”اس کتاب کا ترجمہ کرتے وقت کئی بار سپٹٹایا۔ ڈکشنریوں، انسائیکلو پیڈیاؤں کو بے کار پایا۔ اور بڑ بڑاتے ہوئے ہتھیار دور پھینک دیے۔ دنوں، ہفتوں تک اس کا م پر دوبارہ ہاتھ ڈالنے سے پس و پیش کرتا رہا۔ یہ کتاب حوالوں سے اس قدر بھری ہوئی ہے کہ نہ وہ حوالہ میں خود جانتا تھا اور نہ ہی قرب وجوار میں کسی اور سکالر کی ذہنی رسائی وہاں تک تھی۔ اسی لیے انہیں جوں کا توں لکھ ڈالا“۔

                 بہر حال میں نے اس کا مطالعہ ملتوی کردیا کہ اردو ترجمہ پڑھ کر بھی کچھ خاص پلّے نہیں پڑرہا تھا۔ اسی ضمن میں میری معروضات درج ذیل ہیں۔

                 جس طرح آپ نے صفحہ نمبر44پر انگریزی اصطلاحات کو جُوں کا توں رہنے دیا ہے  اسی طرح آپ کو چاہیے تھا کہ دیگر مقامات پر بھی لوگوں کے نام اور اصطلاحات انگریزی میں ہی لکھی جاتیں۔ اور بعض کا اردو تلفظ بھی لکھ دیا جاتا مثلا صفحہ 44پر ہی ”جن کرڈم“ کے الفاظ اور صفحہ 45پر ”ارنالڈردچ“ ”تھیوڈور ایچٹر میئر“ ”ینگ ہیگلنیز“ اور ”ہیلشچے جہربوچر“۔ یہ الفاظ یا نام انگریزی میں ضرور ہونے چاہیں تھے۔ اکثر مقامات تشریح طلب ہیں۔ ان کے بغیر قاری کو کتاب سمجھ نہیں آئے گی۔

                کچھ مقامات خالص فلسفیانہ ہیں جو صرف فلسفے کا طالب علم ہی (سیاق و سباق کی بنا پر) سمجھ سکتا ہے۔ مثلاً صفحہ 50پر ”خود آگاہی کا فلسفہ“ اور صفحہ 55 پر”پی ایچ ڈی کا مقالہ“ بظاہر آسان سے عنوانات ہیں لیکن بیانیہ نہایت مشکل ہے۔

                 پھر جگہ جگہ فٹ نوٹس یا تشریحی نوٹس کی ضرورت ہے۔ مثلاً صفحہ 64پر ”بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی پاکستانی تاریخ دان سیاسی تاریخ لکھ رہا ہو اور وہ لوگوں کے نام لیے بغیر ”چوہدری برادران“ ”مادر ملت“ ”شریف برادران“ اور ”جیالے“ جیسے الفاظ استعمال کر کے گذر جائے اور ایک امریکی مصنف اِن الفاظ کا ترجمہ تشریح کیے بغیر ویسے ہی کردے تو امریکی شہریوں کو سمجھ نہیں آئے گی کہ مادر ملت سے مراد فاطمہ جناح ہے اور جیالوں سے مراد پاکستانی پیپلز پارٹی کے جانثار ہیں وغیرہ۔

                صفحہ 69پر آپ نے ”ڈائت“ کا لفظ مذکر استعمال کیا ہے اس کو بطور مونث استعمال کرنا بہتر تھا جیسا کہ آپ نے خود بھی سطریں چھوڑ کر بطور مونث استعمال کیا ہے۔ اسے انگریزی یا جرمن زبان میں ہی رہنے دیتے اور اس کا تلفظ اردو میں بریکٹ کے اندر لکھ دیتے۔ اصطلاح الٹرا مونیٹن آپ نے کئی دفعہ استعمال کی ہے۔ اس کی وضاحت ہونی چاہیے تھی۔ آپ نے لفظ ڈوگماؤں استعمال کیا ہے اسے انگریزی میں Dogmas ہی لکھنا چاہیے تھا یا پھر ڈوگماؤں کے آگے بریکٹ میں ڈوگمس لکھ دیتے۔

                 میرے اندازے کے مطابق اس کتاب میں کم از کم دوہزار مقامات تشریح طلب ہیں۔ اور خود فرانز مہر تگ کا انداز بیان بھی آسان نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے قاری کو ترجمہ پڑھنے کے باوجود م مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔

                 مجھے نہیں لگتا کہ آپ میرے اعتراضات کی روشنی میں اس کتاب کا دوبارہ ترجمہ کرنے کی ہمت کریں گے۔ میں نے بہر حال اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرلیا ہے۔

                آپ کا خیر اندیش

                اورنگ زیب۔ ساہیوال

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے