بہت پہلے اردو میں نشر و اشاعت کے زرائع اس طرح موجود نہیں تھے۔ اس وجہ سے جب کوئی شاعر کچھ کہتا تھا تو دوسروں کو سناتا ضرور تھا۔(بالکل ایسا ہی حال ان دنوں فیس بک پر بھی روا ہے) اس خیال کے پیشِ نظر کہ سننے والا اس کو پوری توجہ سے سننے کے بعد اپنی کوئی رائے پیش کرے۔ سننے والا شعر کو سن کر داد دیتا تھا۔ بہ ظاہر ہمیں یہ ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی شاعر نے شعر پڑھا اور سامع نے اس پر "واہ واہ” اور "سبحان اللہ” کہہ دیا۔ لیکن ذرا غور کرنے کے بعد اس حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صرف "واہ واہ یا سبحان اللہ” کا لفظی کھیل نہیں بل کہ سننے والے کچھ سوچ سمجھ کر یہ یا اسی قسم کے دوسرے کلمات استعمال کرتے تھے۔ جب کسی شعر پر وہ اس طرح داد دیتے ہوں گے تو ان کے ذہن میں شعر کے اچھے ہونے کا کوئی نہ کوئی مثبت تصّور ضرور ابھرتا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہ سکتے ہیں کہ ان کے نزدیک شعر کے حسن و خوبی کا کوئی نہ کوئی معیار یقیناََ قائم ہوتا تھا اور یہ خیال یقین کی حد تک پہنچ جاتا ہے جب ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ شعراکو ہر شعر پر داد نہیں دی جاتی تھی۔ جو شعر سننے والوں کو اچھا محسوس ہوتا تھا۔ اسی کو وہ سراہتے تھے۔ ورنہ چپ رہنے میں عافیّت جانتے تھے۔اس چپ ہو جانے سے یہ مطلب تھا کہ سننے والوں کو شعر خوش نہیں آیا یا ان کی رسائی اس شعر کے باطن تک نہیں ہو ہائی۔

                ہر چند یہ معیار بالکل ذوقی اور وجدانی تھا لیکن جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے۔ اس میں ایک تنقیدی شعور اور ایک تنقیدی روایت کا سراغ لگایا جا سکتا ہے

                قندیل بدر کی شاعری گاہے گاہے مطالعہ کے لیے میسّر آتی رہی اب ان کا پہلا شعری مجموعہ ”دھجی دھجی روشنی“ کے نام سے منصہ شہود پر آ چکا ہے۔میں اس کتاب کا بالستعاب مطالعہ کر چکا ہوں۔کئی باتیں مرے ذہن کے نہاں خانے میں نقش ہو رہیں ہیں۔

                قندیل بدر نے دانستہ نیا کہنے کی اشتہامیں ریاکاری نہیں کی۔وہ اپنے خاص رویے کے ساتھ شعر کہتی نظر آئیں جہاں ان کے پسندیدہ موضوعات اور استعارے ان کے منتظر رہے۔قندیل بدر نے نظمیں بھی کہیں ہیں اور غزلیں بھی۔ علاوہ اس کے انہوں مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی ہی نہیں بل کہ شاعری بھی کی جس میں ہائیکو، تروینی شامل ہیں۔ مجھے یہ بات بہت خوش آئی کہ انہوں نے خود کو کسی ایک صنف کا محتاج نہیں بنایا۔جہاں اظہار مکمل وجود کے ساتھ نظم ہوا اس کا قندیل بدر نے پْرتپاک خیر مقدم کیا۔ میں کچھ شعر آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں آپ دیکھیے گا۔

نیا کچھ پینٹ کر اب یاں مصور

یہ سب منظر مرے دیکھے ہوئے ہیں

تری پوروں میں کیا ہے موگرے سا

مرے تو شعر تک مہکے ہوئے ہیں

دیکھنے کی ساری شکتی جل کے کاجل ہوگئی

کس طرف جانے کا سوچا تھا کہ میں شل ہوگئی

تھا عجب عالم بجائے جا رہے تھے دف کہیں

رقص کرتی روشنی میں، میں بھی پاگل ہوگئی

یونہی نہیں بھرا ہے تو نے مجھ میں زہر سمندر کا

میری رنگت ہی ایسی تھی نیلی رنگ میں کھلتی تھی

ہاتھوں میں لے کے آ گئی میں چوڑیاں مگر

تو چاہیے تھا تو وہیں میلے میں رہ گیا

جس کے بغیر میں کئی حصوں میں بٹ گئی

کیا تھا جو مجھ سے ریل کے ڈبے میں رہ گیا

آسماں، سورج، شفق، قوسِ قزح، بادل بنے

جانے کیسے رنگ ہوں جن سے مرا آنچل بنے

کب مرے جوڑے میں مہکے موگرے اور موتیا

کب بدن کے میلے کپڑے ریشمی مخمل بنے

                قندیل بدر کی غزل عمومی طور پر دیگر شاعرات سے قطعاََ مختلف ہے۔مجھے ادھر نام کی یا بے وجہ نسوانیت بھی نظر نہیں آئی کہ نسائی لب و لہجے میں، کاجل، آنچل، مہندی، دوپٹے کو اسی طرح نظم کیا جائے کہ شعریت برقرار رکھنا مشکل ہو۔

 اوزار تو سارے پرانے ہیں اب نئی چیز بنانا آپ کا کام ہے کچھ شعر اور دیکھیے

یہ مٹی کیوں نہیں بھرتی، چٹختی

بدن کیا چاک پر گھوما بہت ہے

تجھے صدیاں لگیں گی جاتے جاتے

میں چاہوں تو مجھے لمحہ بہت ہے

دشت میں نئی ہوں میں

ریت پھانکتی ہوں میں

دن کو کچھ سہی لیکن

شب میں چاندنی ہوں میں

بادلوں کو مٹھی میں

بھر کے دیکھتی ہوں میں

میں کہیں گم ہوں تیری آنکھوں میں

تو مگر اور ہی ہوا میں ہے گم

گم ہے الٹے طواف میں لیکن

”لا“ کا ہرا دائرہ ”الہ“ میں ہے گم

کہیں یہ آگ دل کی بجھ نہ جائے

میں پانی اس لئے پیتی نہیں ہوں

قندیل بدر کا تنوع انتہائی متاثر کن اور دلکش ہے کہ یہ کہیں پھولوں کی طرح ہے کہیں خوشبو بن کر ہماری روھوں میں سرائیت کرتا نظر آتا ہے کہیں کسی ابر پارے کی طرح ہمیں دھوپ میں سایہ ہوتا ہے۔ یہ شاعرہ سادہ سجیلے لفظوں میں بہت گہری بات کرنا جانتی ہیں اور یہی ان کا اختصاص ہے کہ انہوں نے کوئی بھاری بھرکم لفظیات، تراکیب سے مصرع گراں نہیں ہونے دیا بل کہ لطافت کو اپنا وطیرہ بنایا ہے کہ قاری کے دل میں شعر تیر کی طرح ترازو ہو جائے۔

                یہی حال ان کی غزل کے ساتھ ساتھ نظم کا بھی ہے کہ انہوں نے نظمیں کہیں ہیں اور عمومی روش سے ہٹ کر نظم کی کرافٹ پر کام کیا ہے اور نظم کو ادھورا نہیں چھوڑا کہ تشنگی رہ جائے ایک نظم کے چند ٹکڑے دیکھیے

میں سب گلابوں پہ، نیلی جھیلوں پہ ہونٹ رکھ لوں

تو سانس آئے

میں نگری نگری، میں قریہ قریہ یونہی بھٹک لوں

تو خواب آئے

میں اپنی پیاسی زباں سے اک دن سراب چکھ لوں

تو چین آئے

میں اپنی خالی ہتھیلیوں سے یہ چاند ڈھک لوں

تو نیند آئے

                 ان کی نظم اپنے موضوع کے ساتھ جامع اور پْراثر ہے۔ مجھے یہاں ایک اختلاف ضرور ہے کہ جب نظم معری کو ہم اب صرف نظم کہتے ہیں اب سنجیدہ قاری پڑھتے وقت سمجھ جاتا ہے کہ یہ نظم کی کون سی قسم ہے تو اسی طرح ہم آزاد نظم کو بھی نظم کہتے ہیں مگر ہم نثری نظم کو نثری کا صیغہ ضرور استعمال کرتے ہیں کیوں؟ حال آں کہ سنجیدہ قاری، پڑھتے وقت سمجھ جاتا ہے کہ یہ نظم، نثری قسم ہے مگر قندیل بدر نے اسے ”نثم“ کا نام دیا خیر اسے اگر نظم ہی رہنا دیا جائے تو زیادہ اچھا ہے تاکہ پڑھنے والا خود بہتر جان سکے کہ یہ کون سی صنف ہے۔

قندیل بدر کا تخلیقی وفور ابھی تھما نہیں ہے اور میں دعا گو ہوں کہ وہ اسی طرح اپنا سفر جاری رکھیں تا کہ پڑھنے والے کو اچھا ادب میسر آ سکے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے