سنگت اکیڈمی آف سائنسز کوئٹہ کا ماہانہ پوہ زانت اجلاس ڈاکٹر ساجد بزدار کی صدارت میں پروفیشنلز اکیڈمی میں منعقد ہوئی۔ جس میں بلوچستان کے علمی و  ادبی دنیا کے مختلف حلقوں  سے لوگوں نے کافی تعداد میں شرکت کی۔ اس مہینے کے پوہ زانت اجلاس کی نوعیت گذشتہ اجلاسوں سے مختلف تھی۔ یہ اجلاس سنگت اکیڈمی کے ایک مضبوط رکن اور ایجوکیشنل فیکلٹی کے ممبر خیرجان سمالانی کی ناگہانی  موت پر ان کی یاد میں ایک تعزیتی اجلاس تھا۔ اجلاس کا آغاز کرتے ہوئے پوہ زانت سیکرٹری ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو نے کہا، آج کے سنگت پوہ زانت کی تقریب کسی خوشی کے حوالے  سے نہیں بلکہ ہمارے دوست اور سنگت اکیڈمی کے ایک ستون خیر جان سمالانی کی ناگہانی موت کے حوالے سے ایک تعزیتی تقریب ہے۔ جن کے بچھڑنے سے سنگت اکیڈمی کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔ اس بات کا اندازہ سنگت اکیڈمی کے تمام ممبران کی آنکھوں میں بھرے آنسوؤں سے لگایا جاسکتا ہے۔ خیرجان کی موت پر پوری سنگت اکیڈمی نوحہ خواں ہے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا، زندگی کا فلسفہ تو ہم سب کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہر کوئی چار دن کے لئے آتا ہے اور پھر اس دنیا سے کوچ کرجاتا ہے۔ یہی بچھڑنا ہی شاید زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ اصل معاملہ یہ نہیں ہے کہ انسان کتنے عرصے تک زندہ رہتا ہے بلکہ اس قلیل عرصے میں انسان کا جو کردار رہتا ہے وہی اس کی شخصیت کا تعین کرتاہے۔ سنگت خیر جان ایک ایسا انسان تھا جو اپنی زندگی کے مقاصد کا تعین کرچکا تھا۔ وہ مورچے کا ساتھی تھا اور مورچے کے ساتھی کبھی فراموش نہیں کئے جاسکتے۔ایسے ساتھی مرنے کے بعد نظریہ بن جاتے ہیں۔

سنگت اکیڈمی کے سابقہ سیکرٹری جنرل عابد میر نے خیرجان پر اپنا مقالہ  پڑھتے ہوئے کہا، خیر جان شر اور بیگانگی کے اس زمانے میں  خیر کے کمزور مگر نظریاتی قافلے کا مضبوط ساتھی تھا۔ وہ بلوچستان سنڈے پارٹی اور پوہ زانت کے ریگولرترین ممبرز میں شامل تھا۔ وہ اپنی پوری زندگی محنت اور جد وجہد سے جڑا رہا اور تنظیمی اصولوں و نظریات میں خود کو ڈھالتے ہوئے ایک منظم انسان کی حیثیت سے زندہ  رہا۔ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اس خیر کے کاروان کا مستقل ہمسفر رہا۔

 سنگت اکیڈمی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل جاوید اختر نے اپنے خیالات  کا اظہار یوں کیا، زندگی بہت خوبصورت ہے اور اس میں کچھ لوگ ملتے ہیں جو بچھڑ کر خوبصورت یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک شخصیت خیرجان سمالانی تھا۔ ان سے میری ملاقات ایم۔ فل کے زمانے میں ہوئی جب ہم دونوں بلوچستان  یونیورسٹی میں ایم۔ فل کررہے تھے۔ یہیں سے ہماری شناسائی ہوئی اور وہ سنگت پوہ زانت میں باقاعدگی سے آنے جانے لگا۔ وہ نہ قلمکار تھا، نہ شاعر تھا بلکہ ہمیشہ دوسروں کے مقالے سن کر ان سے استفادہ کرتا تھا۔ وہ علم و دانش کا اس قدر پیاسا تھا کہ پوری زندگی اسی پیاس کو بجھانے میں مگن رہا۔

نجیب اللہ سرپرہ نے کہا،سنگت خیرجان ایک جہدِ مسلسل کا نام تھا۔ جس کے پاؤں میں کبھی جوتے نہیں ہوتے، کبھی گھر کے دروازے اس کے لئے بند کردیئے جاتے اور کبھی کھانے کے لئے پیسے نہیں ہوتے۔ لیکن زندگی  میں حالات جیسے بھی ہوتے  وہ کبھی ہمت نہیں ہارتا تھا۔ دن رات محنت کرکے خود کو اور اپنی فیملی کو اس  مقام تک پہنچانے میں کامیاب رہا۔ وہ کتابوں کا ایسا ایسے دیوانہ تھا کہ جہاں بھی  کتابیں ہاتھ لگ جاتیں وہ چلتے  پھرتے، اٹھتے بیٹھتے بس پڑھ رہا ہوتا۔

 خیرجان کے بچپن کے دوست نذیر لہڑی نے ان کے ساتھ اپنی یادوں کی کچھ جھلکیاں بیان کرتے ہوئے کہا، خیرجان کے ساتھ میں نے زندگی کے بتیس سال گزارے ہیں جن میں ہمہ وقت اسے جد وجہد اور تگ ودو میں پایا ہے۔ وہ محنتی اور محبت کرنے والا انسان تھا۔ اس پورے عرصے میں  میں نے کبھی اسے بے غم بیٹھتے ہوئے نہیں دیکھا۔وہ بہت ہی حسّاس انسان تھا، کبھی کسی کا درد وغم برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ شاید اسی حساسیت کی وجہ سے وہ دل کی بیماری کا شکار ہوگیا اور یہی جان لیوا مرض اس کی جان لے گئی۔ صوفی عبدالخالق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، خیرجان سنگت اکیڈمی کا ایک ایسا  رکن تھا جو اپنے ساتھیوں کو چن چن کر اس قافلے میں شامل  کرتا تھا۔ جب تک یہ کاروان قائم ودائم ہے خیرجان زندہ ہے اور ان کا نظریہ بھی زندہ رہے گا۔  ان کے علاوہ زاہدہ رئیس راجی اور عبدالحکیم بلوچ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سرور آغا نے قرار دادیں پیش کیں  جو منظور کی گئیں۔

قراردادیں:۔

۔1۔یہ اجلاس سنگت اکیڈمی کے متحرک ساتھی سنگت خیرجان سمالانی کی ناگہانی موت پہ نہایت دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنا گہرا نقصان قرار دیتا ہے۔

۔2۔یہ اجلاس سنگت کے دیرینہ ساتھی، اردو اور پشتو کے معروف شاعر وادیب محمود ایاز کی زوجہ اور وصاف باسط کی والدہ کی وفات پہ ان سے تعزیت کا اظہارکرتا  ہے۔

۔3۔صوبے میں صحت  و تعلیم  کی ناکافی سہولیات پہ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتاہے کہ ہردومیدان میں عوام کو سہولیات پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔

۔4۔ ہمبلوچستان حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں سیاسی و تنظیمی پابندیوں پہ سخت افسوس کا اظہار کرتے  ہوئے اس کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

۔5۔ہم اٹھارویں ترمیم پہ مکمل عمل درآمد کا مطالبہ  کرتے ہوئے بلوچستان کے معاملات کو  سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

۔6۔ گوادر میں ماہی گیروں کو ساحل سے بے دخل کرنے کی مذمت کرتے ہوئے ان کے جائز مطالبات پہ عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

۔ 7۔یہ اجلاس پاکستان میں برھتی ہوئی مہنگائی پہ شدید تشویش کا اظہار کرتا ہوہے۔

۔8۔ نیوزی لینڈ  میں دہشت گردی کاروائی کی مذمت کرتے ہوئے، وہاں کی وزیر اعظم اور عوام کے ہم دردانہ انسانی ردعمل کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتاہے۔

۔9۔ ہم عورتوں کی جدوجہد کو طبقاتی تحریک کا لازمی حصّہ سمجھتے ہوئے اس کی بھرپور حایت کرتے ہیں۔

۔10۔ ہم بھاگ ناڑی کو  پانی کی فراہمی کے لئے تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال پہ بیٹھے ہوئے نوجوانوں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بھاگ سمیت بلوچستان بھر میں پانی کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔

                قراردادیں منظور کی گئیں اور یہیں یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے