باد  صر صر  کے مارے ستائے ہوئے

ہم نہیں ایسے صحرا  میں آئے ہوئے

ظلم سہنے کی عادت میں خلق ِ خدا

سہتی جاتی ہے  سر کو جھکائے ہوئے

تم نے جس حال میں لاکے چھوڑا ہمیں

ہم  نہ  اپنے  ہوئے  نا  پرائے  ہوئے

پانیوں  کا  سفر  از  کجا  تا نظر

ہم ہیں خستہ سی کشتی اٹھائے ہوئے

شوق ِ الفت میں سود و زیاں کچھ نہیں

اک شکستہ سی جاں  ہیں لگائے ہوئے

اب تو بچے بھی ہم کو پڑھانے لگے

ہم جو بالوں میں چاندی سجائے ہوئے

جب سے دیکھا ہے خود کو پریشان ہیں

چھپتے پھرتے ہیں منہ کو چھپائے ہوئے

ہم  زمیں زاد ہیں گل زمیں کے  لیے

کچھ ستارے فلک سے ہیں لائے ہوئے

تیرے بندوں نے بندوں پہ ڈھائے ستم

سات پردوں میں تم کو چھپائے یوئے

تم کو  ڈھونڈوں کہاں اک زمانہ ہوا

تم کو دیکھا  کیے ھیلو  ھائے  ہوئے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے