(والدِ مرحوم کے مزار پر)

 

دُورآبادیِ گُنجاں کے چراغ

جگمگاتے ہوئے تاروں کی طرح

ہر جھلک میں وہ تصّور کے نقوش

ترے مبہم سے اِشاروں کی طرح

یوں تصّور میں آتے ہیں نظر

جیسے رنگین مناظر کی بہار

اِک طرف ذوقِ نظر کا یہ سماں

اِک طرف تیرا شکستہ سا مزار

جی میں آتا ہے لپٹ کر اس سے

آج کچھ دیر میں روتا ہی رہوں

روتے روتے جو میں سوجاؤں یہیں

اس طرح سوؤں کہ سوتا ہی رہوں

ترے ماضی کے یہ دھندلے سے نقوش

مری دنیا کے تصور کے لیے

کھینچ لے کھینچ لے تصویرِخیال

اور کچھ بھی ہے مصور کے لیے

گردشِ دہر سے آزاد ہے تُو

تجھ کو معلوم نہیں آج یہاں

خون اپنا تو بہاتے ہیں غریب

اور امیروں کا ہے اب راج یہاں

ظلم خود اِن کو مٹائے گا کبھی

وقت ایسا بھی تو آئے گا کبھی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے