کس قدر خوبصورت لڑکی تھی زندگی سے بھرپور۔ اس کا نام بنفشہ تھا۔ وہ نام کی طرح کومل تھی۔ آنکھیں خوابوں سے سرشار۔ مگر آئے دن وہ ڈانٹ کھاتی استانیوں سے۔ اس کالج کی استانیاں روایتی اور تنگ نظر تھیں یا پھر اس میں کوئی انفرادیت تھی۔ حالانکہ اس میں بظاہر ایسی کوئی خامی نہ تھی سوائے زندگی بخش ہنسی کے۔ وہ بھی بے اختیار ہنسی جیسے جھرنا بہتا ہے۔ جھرنے جیسی تھی وہ۔

 میں جب سائنس فیکلٹی کلاس لینے جاتی تو وہ کینٹین کے قریب لڑ کیوں کے جھرمٹ میں ہنس بول رہی ہوتی۔ اس کے مترنم قہقہے کالج کی دیواروں سے ہوتے ہوئے، آسمان میں تیرتے ہوئے، سرمئی بادلوں کو چھوتے اور اڑتے پرندوں کے پروں میں جذب ہوجاتے۔ یہ ہنسی اس قدر حسین ہے، دنیا جس کی دشمن ہے۔

                وہ استانیوں کو بیحد بری لگتی۔ وہ اکثر زور سے ہنسنے پر یا کبھی ان کی غیرحاضری کے دوران، کلاس میں گانا گانے پر انکی عدالت میں کھڑی دکھائی دیتی۔

اس کی آواز خوبصورت تھی۔ بالکل ولیم ورڈزورتھ کی نظم سالیٹری ریپر جیسی۔ جس میں کھیتوں سے گذرتے یہ آواز شاعر کا راستہ روک لیتی ہے۔ جہاں پہاڑی لڑکی، فصل کاٹتے انجان گیت گاتی ہے۔ پھر وہ یہ آواز کبھی نہیں بھولتا۔ جب بنفشہ کالج کے موسیقی کے پروگرامز میں گاتی تو وقت رک جاتا جیسے۔ جوانی کا جادو اس کی آواز اور ہر انگ سے امڈنے لگتا۔ اکثر لڑکیاں اس سے حسد کرتیں۔

 مجھے وہ اچھی لگتی۔ اس کی بے ساختہ ہنسی میں دور کی قدامت پرستی کے خلاف ایک فطری بغاوت محسوس کی جاسکتی تھی۔ یہ سماج لڑکیوں کی ہنسی کو مسترد کرتا ہے۔ گھر کی بڑی بوڑھیاں اکثر اس ہنسی پر ہر نسل کو ٹوکتی رہی ہیں۔ جب لڑکیاں ہنستی ہیں تو ان کے مترنم قہقہوں سے, فضا میں موجود منفی لہریں بکھر جاتی ہیں۔ ہر فطری رویے کو معاشرہ مسترد کرتا ہے۔ اور بناوٹ کی فضا میں اندر کے حبس کو بڑھاوا دیتا ہے۔

                مجھے لڑکیوں کی ہنسی چڑیوں کی چہچہاہٹ جیسی لگا کرتی۔ یہ خوبصورت آوازیں زندگی کی علامت ہیں۔

                لڑکیوں کی ہنسی پر پہرہ بٹھانے والے خود بھی روتے ہیں جب یہ ہنسی دائمی چپ کی چادر اوڑھ لیتی ہے۔

 سٹاف روم میں بیٹھی تھی کہ بنفشہ کی برائیاں زیربحث تھیں۔ ” کالج  میں عشقیہ گانوں پر پابندی لگائی جائے۔ مقابلہ موسیقی میں قوالیاں یا صوفی کلام شامل ہوں ”۔سٹاف روم کی چائے کمیٹی کی انچارج سینئر استانی مس زنیرہ بولیں۔ شادی نہ ہوسکنے کے باعث وہ ابھی تک مس تھیں۔ ہر اعتراض ان کی طرف سے آتا۔ گویا کہ وہ اپنی محرومی کا بدلہ ہر ایک سے لینا چاہتی ہوں۔ کالج میں موسیقی کا مقابلہ منعقد ہونے جارہا تھا، جو ہفتہ طالبات میں ہر سال شامل ہوتا۔

 ”میں تو کہتی ہوں یہ گانا بجانا بند کیا جانا چاہئے۔ عشقیہ گانے لڑکیوں کے جذبات ابھارتے ہیں۔ لڑکیاں علم حاصل کرنے آتی ہیں یا عشق کی ترغیب حاصل کرنے "۔علم سیاسیات کی پروفیسر نے کہا جن پر اپنے مضمون کا کچھ زیادہ ہی اثر تھا۔

  ابھی گفتگو جاری تھی کہ ایک لیکچرر موبائیل ہاتھ میں لئے اسٹاف روم میں داخل ہوئی۔ جس کے پیچھے پریشان حال بنفشہ اندر آئی۔ اس کا موبائیل پکڑا گیا تھا اور وہ ٹیچر کی منتیں کررہی تھی۔ کالج میں موبائل لانا ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ لہذا موبائل پکڑنے کی کمیٹی کی انچارج مس شفق نے آج دو سو پچاسواں کامیاب معرکہ سرانجام دیا تھا۔ باقی لڑکیاں ہوشیار تھیں۔ ان سے موبائیل برآمد کرنا مشکل مرحلہ تھا۔ نئی نسل کے لئے موبائیل سانس لینے کے عمل جیسا ناگزیر بن چکا یے۔ یہ رابطے کا ذریعہ کم مگر کھیل و مزاح کی حس کو زیادہ تسکین دیتا ہے۔

                ” تم جاو یہاں سے بنفشہ” مس شفق نے اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے تیز لہجے میں کہا تو وہ روتی ہوئی باہر چلی گئی۔

                ”اس لڑکی نے ناک میں دم کرکے رکھا ہے ” کیمسٹری کی استانی نے کہا۔

                وہاں موجود تمام استانیاں بنفشہ کو برا بھلا کہنے لگیں لگیں۔

                ” اس کا پچھلے سال بھی موبائیل بیگ سے برآمد ہوا تھا۔ "شفق نے کہا۔ مجھے یاد آیا کہ اس کے بھائی کو آفس میں بلایا گیا تھا۔ شاید آج پھر بلائیں گی۔ ایک تجویز یہ بھی تھی کہ اس کے بھائی کے بجائے والدہ کو بلایا جائے مگر میں نے شدید مخالفت کردی۔

 شفق اس کے موبائیل میسج پڑھ کر اپنی دوستوں کو سنا رہی تھی۔

” بھائی کو بیچ میں مت لائیں خود ڈیل کریں یہ معاملہ”

میں نے سمجھانے کی کوشش کی۔

                یہ حقیقت ہے کہ وہ خوبصورت تھی اس لئے کئی اس کے چاہنے والے ہونگے۔ اس کا تعلق روایتی گھرانے سے تھا۔ برقعہ اوڑھتی تھی۔ پڑھائی و غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتی۔ اچھی طالبہ تھی مگر مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس کے خواب ادھورے نہ رہ جائیں۔ جیسے سیما کے ساتھ ہوا تھا۔

                اس کے بیگ سے نہ فقط موبائیل برآمد ہوا بلکہ وہ ایک دن کالج آئی تو رنگین کپڑے بدل کر دس بجے سہیلی کے ساتھ گیٹ سے باہر جارہی تھی کہ چوکیدار نے اسے روک لیا۔ والدین بلائے گئے اور سیماکو گھر بٹھادیا گیا۔ اس کے بعد جلدی میں اس کی شادی خاندان کے نکمے لڑکے سے کردی جو نشے کا عادی تھا۔ آئے دن اسے مار پیٹ کرتا۔

                میں اس وقت پرنسپل کے آفیس میں بیٹھی تھی کہ ٹیچرز اندر آئیں۔ شفق ان کے ساتھ تھی۔ پوری روداد پرنسپل کے گوش گذار کردی گئی اور طے یہ پایا کہ اس کے والد کو بلایا جائے۔ فون کرنے پر معلوم ہوا کہ والد کراچی میں تھے۔ البتہ اس کا بھائی آرہا تھا۔ بنفشہ کے موبائیل سے پڑھے جانے والے اس کے بوائے فرینڈ کے میسجز پر بات ہورہی تھی۔ اسے برا بھلا کہا جارہا تھا۔ حالانکہ اس کے میسج سرعام اچھالنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اس کی عزت نفس مجروح کی جارہی تھی۔ آخر ان استانیوں کی اپنی بیٹیاں ہونگی۔

                 ”میرا خیال ہے کہ بات بڑھانے کے بجائے بنفشہ کو ایک موقعہ دیا جائے۔ اسے کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے۔ سمجھانے سے اکثر مثبت نتائج ملتے ہیں "۔ میں نے آّخری کوشش کی۔

                 ”ایسی لڑکیوں کو سخت سزا ملنی چاہئے تاکہ دوسری لڑکیاں سبق حاصل کرسکیں "۔ پرنسپل نے جواب دیا۔ دنیا جزا و سزا پر یقین رکھتی ہے مگر گناہ اور جرم کے محرکات کو نظر انداز کردیتی ہے۔

                سزا سے برائی کبھی ختم نہیں ہوتی یہ مزید جڑ پکڑتی ہے۔ یہ کھیل سنگین تھا جو لڑ کیوں کی زندگیوں سے کھیلا جا رہا تھا۔ حالانکہ اکثر لڑکیاں غریب گھروں سے تعلق رکھتی تھیں۔ ہر گھر میں کوئی گھر کا فرد مہلک بیماری میں مبتلا تھا۔ اکثر کلاس میں بیہوش ہوجاتیں۔

                پرنسپل کی باتیں تکلیف دے تھیں لہذا میں نے وہاں مزید بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا۔

                غلطی کو ایک اور غلطی سے درست نہیں کیا جاسکتا۔ نفرت، نفرت سے ختم نہیں ہوسکتی۔

                میں لائبریری میں تھی کہ بنفشہ میرے پاس آئی۔ اس کی رنگت زرد ہوچلی تھی اور خوبصورت آنکھوں میں اندیشے منڈلارہے تھے۔ خوف میں انسان کے متحرک احساسات منجمد ہو جا تے ہیں۔ مجھے لڑکیوں کے خوفزدہ چہرے پسند نہ تھے۔ لڑکیوں کے چہرے یقین کی روشنی سے سرشار بھلے لگتے ہیں۔ وہی روشنی ان کے آنگن میں جھلملا اٹھتی ہے۔ احساس محرومی میں بیتا بچپن اور احساس کمتری میں مبتلا جوانی خطرناک ہوتے ہیں۔ ان دو انتہائیوں میں میں پس کر سماج اندر سے کھوکھلے رہ جاتے ہیں۔

                ”مس پلیز ہماری مدد کیجئے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ موبائیل نہیں لائیں گے۔ ہمارے بھائی کو مت بتائیے گا نہیں تو وہ جان سے ماردیں گے ہمیں“۔

وہ گڑگڑانے لگی۔

 ”کسی کو پسند کرتی ہو“؟

”جی“ کئی رنگ اسکے چہرے پر جھلملا اٹھے۔

”کون ہے؟ ” میں نے پوچھا۔

 ”میرے محلے میں دوست رہتی ہے اس کا کزن ہے۔ سال میں ایک بار چھٹیوں میں آتے ہیں۔ رشتا بھجیں گے وہ“۔خواب تھے کہ قوس و قزح کے رنگ تھے۔ ہر سوچ کے ساتھ اس کے گال رنگ بدلتے۔ اس وقت گالوں پر املتاس کے پھول لہلہا رہے تھے۔ خوفزدہ سوچ نے خوابوں کے دروازے پر جیسے دستک دی ہو۔

” مس پلیز موبائیل بھائی کو مت دیجئے گا "۔

وہ منتیں کرنے لگی۔

اسی اثناا میں شفق اندر داخل ہوئی۔ اور اسے لے گئی۔ اس کے بعد بھائی کو بلایا گیا اور سارا معاملہ گوش گزار کرنے کیساتھ موبائیل بھی ہاتھوں میں تھمادیا گیا اور وہ غصے میں اسے بازو سے گھسیٹتا لے گیا۔

لمحے بوجھل ہو چلے تھے۔

                دوسرے دن وہ کالج نہیں آئی۔ اس کی حادثاتی موت کی اطلاع ملی۔ گھر والوں کے مطابق اس کا پاوں پھسلا اور سر پرچوٹ لگنے اور زیادہ خون بہنے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی!۔

                بہار کے دن ہیں اور کوئل دوبارہ کوکنے لگی ہے۔ اس بار اس کی آواز کا سوز احساس کو زخمی کرنے لگا ہے۔ اس سے ملتی جلتی بنفشہ کی آواز دل کے قریب سے آنے لگتی یے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے