ہزاروں گنج ہیں جن پر تیرے پیروں کے بوسے ہیں

تہہِ خاکِ وطن تو ہے یہ پیہم تیرے سبزے ہیں

 

میں اپنے مہرباں چلتن سے کلیاں چُننے آئی ہوں

قطاروں میں شگفتہ تر تیری نظموں کے پودے ہیں

 

وہی پتھر ہیں جن پر کائی کے رنگوں کی مٹی ہے

گُل ِ لالہ کے سینوں میں سیاہ داغوں کے لاشے ہیں

 

ہے صحرا مرگِ دائم کا کہ جورہ جانے والا ہے

ہے جنگل ریت کا، دریاؤں کے ریتیلے تودے ہیں

 

شفق رنگوں میں اب بھی آشتی سِنگھار کرتی ہے

زمیں پر جتنے عاشق ہیں بلوچستاں کے بچے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے