گوبلز اور ہملر سے: ۔

 

روس بڑھتا آرہا ہے کیا کروں

جر منی پرچھا رہا ہے کیا کروں

مطمئن ہوں یوں تو اب ”انجام“ ہے

دل مگر گھبرا رہا ہے کیا کروں

محبوبہ سے: ۔

مجھ کو معلوم ہے محبت میں

کیا سے کیا جانے ہوگیا تھا میں

کیسی غفلت ہوئی کہ وقت سحر

پاؤں پھیلا کے سو گیا تھا میں

وطن سے: ۔

میں بھی غمگیں مری دُنیا بھی اداس

زندگی کوئی تماشہ تو نہیں

ترے قدموں میں رہوں مثلِ غبار

میں گدا گر ہوں کوئی شہ تو نہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے