اُس کی آواز کا جادو دشت اور کہساروں میں بہتے چشمے کی آواز بن کر دھیمے سروں سے گنگنا تا۔ وہ جب لوک گیتوں کے الاپ کے ساتھ مست ؔ، سمو ؔ، شہداد،مہناز،ماہ گل اور سیمک کے اشعار گنگنا تا تو اُس کی آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ محفل میں ایک سر شاری کی کیفیت پیدا ہوجاتی۔

                 گل جان بچپن ہی میں یتیم ہوگیا تھا اُسے لوگوں کی ہمدردی اور اُس کی بیچار گی کے بدلے میں آنے ٹکے کی مدد بہت بری لگتی تھی۔ایک دن فقیر بابا نے اسے اپنے سائے میں بٹھا لیا اور صوفیاکے اشعار سناتے سناتے لے اور سُر سے آشنا کر دیا۔اب وہ فقیر بابا کے لئے کھانے بناتا،اُس کا کمبل تکیہ ٹھیک کرتا، اُس کے کپڑے دھوتا، ہوا سُر کا ساتھی بن گیا۔ اُس کی آواز مترنم ہوتی گئی اب ارد گرد میں لوگ اُس کی آواز سن کر اُسے داد دیتے۔

ؔ             فقیر بابا کی بیماری اور انتقال کے بعد اب گل جان بہت مایوس ہوچلا تھا۔ وہ فقیر بابا کے دلدوز گانے گاتا ہوا وقت گزار رہا تھا اس دوران اُستاد حضور بخش کی ایک موسیقی کی محفل میں اُس نے ایک شوخ گانا سنایا تو محفل کا دل جیت لیا۔ اب وہ محفل موسیقی کے پروگراموں کے ساتھ ساتھ ریڈیو کے کچھ پروگراموں میں بھی آنے لگا۔دنوں میں ہی گل جان ایک ابھارتا ہوا گلوکار بن گیا۔ اس دوران اُس نے راگ راگنیا ں بھی سیکھ لیں اور اُس کی آواز ہمارے فوک کے مشہور طرزوں کے ساتھ ساتھ نئے طرز کے گانوں کے ساتھ مقبول اور معروف ہونے لگا۔اب وہ اُستاد ارباب خان، فیض بلوچ، حضور بخش خضداری اور دیگر استادوں کی طرزوں کو نئے اندا ز سے گانے لگا تھا۔اب وہ ملک اور بین الاقوامی سطح پر ایک نامور گلوکار اور اپنے صوبے کی پہچان بنا تھا۔ لوگ اس سے ملنے اُس کے ساتھ تصویریں بنانا اپنے لئے فخر سمجھتے تھے۔  وہ آٹو گراف تو نہیں دے سکتا تھا لیکن لوگوں کے ساتھ مل کر لوگوں کے درمیان بیٹھ کر اپنے چاہنے والوں کاحوصلہ بڑھاتا۔ اب کوئی بھی میلہ، کوئی بھی موسیقی کا پروگرام خاص طور پر ٹی وی شوز اس کے بغیر نامکمل تصور کئے جاتے تھے۔ شادی کے بعد اُس کے پانچ بچے ہوئے لیکن بد قسمتی سے وہ اپنا گھر نہیں بنا سکا۔ جہاں اُسے پلاٹ ہوئے وہ بیچ کر کھانے پینے میں لگا گیا۔ کبھی کبھی وہ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے آپ کو مسرور بھی کرتا۔لیکن آنے والے دنوں کی کوئی فکر اسے نہیں تھی۔دوست احباب مشورہ بھی دیتے لیکن وہ کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا۔ وقت گزر تا رہا۔اب جدید موسیقی اور پاپ گانوں کا رواج شروع ہونے لگا۔لوگوں کا مزاج اور پسند بدلنے لگے۔ اب کئی کئی دنوں تک گل جان گھر پر پڑا رہتا۔ اُس کی طبیعت بھی نا ساز رہنے لگی، ٹی وی اور ریڈیو کے پروگرام بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس کے علاوہ نجی محفلیں بھی حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ ماند پڑ گئے۔گل جان کبھی ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے دروازوں پر اپنے باری کے انتظار میں نظر آتا۔ گھر کی مفلوک الحالی نے اسے ذہنی طور پر بھی صدمہ پہنچایا۔ کبھی کبھی کوئی انٹرویو ہوتا تو وہ گلے شکوے میں وقت گزارتا۔ایک دن مجبور ہوکر اُس نے اپنے سارے ایوارڈ میزان چوک پر برائے فروخت رکھ دیئے۔ لوگوں نے ہمدردی کا اظہار تو کیا لیکن کوئی خاطر خواہ مدد نہیں ہوئی۔چند میڈیا چینلز نے اُس کی حالت زار پر پیکج بنائے اس کے انٹرویوز کئے لیکن یہ سب کچھ چند دنوں پر ہی محیط تھا۔ اب گل جان اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بستر سے لگ گیا تھا۔وہ دن میرے لئے بھی خوشگوار تھا جب میں ایک مضافاتی علاقے میں اُس کے بوسیدہ سے گھر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔اُس نے مجھے اپنے وتاخ میں بٹھایا۔ حال احوال کے بعد اس کے بیٹے نے سبز چائے لاکر میرے سامنے رکھ۔

                شاید اسے بڑے دنوں بعد کوئی سننے والا اور توجہ دینے والا کوئی وقت نکالنے والا قدر دان ملا تھا۔

                اس کے لہجے میں ایک سرخوشی تھی ماضی کے اچھے دنوں کا نشہ تھا۔

                مراد جان! بڑا اچھا دور تھا، سننے والے بھی اچھے تھے اور سنانے والے تو تھے ہی …… میں نے انپے وطن کی خدمت کی۔ مجھے صاحب لوگ لندن، امریکہ، فرانس بھی لے گے۔ میں نے اپنے وطن کے لوک گیت گانے سے خوب عزت کمائی۔میں نے بات کاٹتے ہوئے سوال کیا۔

                 ”استاد جی یہ بتاؤ پیسے بھی تو کمائے،“

                گل جان نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا

”ادھر سے کمائے ادھر سے کھالئے کس کو پتہ تھا یہ حال ہوگا ……!“

                 میں اٹھ کر اُس کے قریب گیا۔ اُس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا

                ”اللہ خیر کرے گا میں نے اوپر بات کی ہے“۔ وہ مایوس لہجے میں اٹھتے ہوئے بولا“ پتہ نہیں کتنے دن باقی ہیں۔میرے بعد ان پانچ  بچوں کا کیا ہوگا۔تین بیٹیوں کی شادی کیسے ہوگی۔ مراد جان مفلسی نے میرے گھر میں ڈیرا ڈال دیا ہے۔ اب تو کوئی چوکیدار چپراسی کی نوکری بھی دینے کو تیار نہیں“۔

                ”آ پ حوصلہ رکھیں ثقافت کے محکمے میں میٹنگ ہوئی ہے وہ ضرور کچھ مدد کریں گے“وہی روایتی جملہ ان سنی کرتے ہوئے بولا۔

”اب مجھ سے اور نہیں ہوگا‘ مرجانے دو مجھے۔ اور ان بد بخت بچوں کو“۔

                یہ کہتے ہوئے وہ مایوس قدموں کے ساتھ اپنے آنسوؤں کو ارد گرد سے چھپاتے ہوئے اندر کے کمرے میں چلا گیا۔

                 مجھے خود پر خجالت محسوس ہونے لگی۔ اتنا بڑا فنکار ہمارے ثقافت کی پہچان آج اس طرح در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔

                 میں نے اخبار میں استاد جی کا فیچر شائع کیا۔ منسٹر کو خط لکھا۔ کافی دنوں بعد سیکرٹری کلچر نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے استاد جی کے لئے مالی امداد کا اعلان کیا۔میں اگلی صبح استاد جی کے پاس پہنچا۔استاد جی ایک بوسیدہ چارپائی پر آنکھیں آسمان سے لگائے لیٹا تھا۔میں نے انہیں مالی امدد کی خوش خبری سنائی اور بہ مشکل ساتھ چلنے کو راضی کیا۔ آفس کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے  ان کا سانس پھول رہا تھا۔ میں نے سہارا دیا وہ کاریڈور کی پہلی ہی بنچ پر بیٹھ گئے۔ میں نے انہیں یہیں انتظار کرنے کا کہہ کہ آفس کا رخ کیا۔ چیک ابھی فنانس سے نہیں پہنچا تھا۔ میں ادھر ادھر دوڑا اور چیک حاصل کر لیا اور استاد جی کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی میں ہانپتے کانپتے لاکر استاد جی کے پاس پہنچا۔

                ”استاد جی یہ لیں چیک یہاں دستخط کرلیں …… یہ!!

استاد جی کا سر ایک طرف کو جھگ گیا تھا۔ وہ صبر اور انتظار کی حد سے آگے نکل گئے تھے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے