یہ پھڈہ سالوں سے چل رہا رھا تھا۔

بچپن سے لے کر آج تک وہ اس شدید کوشش اور خواہش میں مبتلا رہی کہ وہ اپنے لہو میں گردش کرتی اس طاقتور اور لازوال کہانی کو پنے پر اتار سکے۔ لیکن نٹ کھٹ کہانی کبھی ہاتھ تو کبھی پیر کی جھلک دکھلا کر پھر سے اس کے من کے اندر کہیں چھپ جاتی۔

                لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا- ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب وہ ایسی کسی خواہش سے قطعی طور پر ناآشنا تھی۔ اْن دنوں وہ لکھنے پر نہیں سوچتی تھی۔ وہ تو بس نصابی کتابوں میں موجود ملی نغموں کو سْر میں پڑھ کر۔۔ بلکہ گا گا کر اپنی ہمجولیوں سے داد وصولتی تھی۔

اسے یاد آیا کہ یہ ساری گڑ بڑ  بچپن میں ان کے پڑوس میں رہنے والے ماسٹر چاچا کی دی ہوئی کتابوں کو پڑھ کر شروع ہوئی تھی۔

                ماسٹر چاچا کا گھر اور ان کا گھر۔۔ جیسے دو جڑواں تھے، جن کو بیچ  میں  اٹھائی گئی فقط ایک پتلی سی دیوار  کی مدد سے الگ کیا گیا تھا۔ اور جس دیوار کو  دونوں گھروں کی باہمی محبت کی ماری عورتوں نے بیچ میں سے تھوڑا تھوڑا کرکے ایک چھوٹے سے دروازے جتنا توڑ دیا تھا۔ اور یوں وہ دو گھر، جب چاہیں ایک بن جاتے تھے۔ ایسا حشر گاؤں میں اکثر گھروں کے ساتھ ہوا ہوتا تھا اور یہ کسی کے لئے بھی نئی یا اچنبھے والی بات نہیں تھی۔

                اماں کو جب بھی کوئی مسالا وغیرہ کم پڑتا، جھٹ سے بول دیتیں۔۔ جاؤ ذرا چاچی سے دوڑ کر سفید زیرہ لے آؤ۔۔ ہلدی لے آو، ادرک لے آؤ۔۔ اور ساتھ میں دھیرے سے پیغام بھی بھیج دیتیں کہ آج آپ سالن مت بنائیو۔۔ اور پھر طعام  تیار ہونے کے بعد ایک بڑا سا برتن بھر کے چاچی کے گھر بھیجا جاتا۔۔ یوں کہ چاچی کو سچ میں کچھ اور بنانے کی حاجت پیش نہ آتی۔ یوں دن میں سیکڑوں بار وہ ان دو گھروں کو ایک گھر بناتے رہتے۔

                ہاں تو گڑ بڑ تب شروع ہوئی جب ایک روز اچانک ہی ماسٹر چاچا نے اعلان کردیا کہ محلے کے سب بچے روزانہ شام کو ان کے ہاں سبق یاد کرنے آجایا کریں جس کی کوئی فیس نہیں لگنی تھی۔

                وہ چونکہ پڑھائی میں اچھی تھی اور سبق یاد کرنے میں دوسرے بچوں سے کم وقت لیتی تھی تو اسے ماسٹر چاچا نے ایک اضافی کام سونپ دیا تھا۔ ماسٹر چاچا کے گھر میں پڑی بڑی سی کتابوں کی الماری میں سے ایک کتاب اٹھانا اور جتنا وقت بچتا ہو اس کو بیٹھ کر پڑھنا۔ شروع شروع میں اسے بچوں کی کہانیوں کے چھوٹے چھوٹے رسالے پڑھنے کو دیے جاتے رہے۔ اسے کہانیاں پڑھنا بہت اچھا لگا۔ دھیرے دھیرے اس نے بڑوں کی کتابیں پڑھنا شروع کی۔ چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے مجموعے، بڑے اور چھوٹے ناول۔۔ پھر شاعری۔۔۔

                اسے پڑھنے میں مزہ آرہا تھا۔

                وہ کچھ سالوں سے مسلسل پڑھ رہی تھی اور اب کبھی کبھی وہ ماسٹر چاچا کے ساتھ ان کہانیوں اور ان نظموں کے باری میں بات بھی کرتی۔ ایک بار اس نے ماسٹر چاچا سے پوچھا کہ یہ نظمیں اور یہ کہانیاں اور یہ بڑی بڑی کتابیں کون لکھتا ہے؟؟۔ ماسٹر چاچا نے اسے بتایا کہ یہ ہمارے جیسے ہی لوگ ہیں۔ تمہاری اور میری طرح کے لوگ۔۔ وہ دنگ رہ گئی۔۔

                تو وہ لکھتے کیسے ہیں۔۔؟ اس نے فرطِ شوق سے پوچھا تھا۔ ماسٹر چاچا نے اسے بتایا کہ ہمارے ارد گرد جو کچھ بھی ہے۔۔ اچھا برا، انصاف ناانصافی، خوشی غم، انسان رویے، آنسو مسکراہٹیں قہقہے، درخت پھول تتلیاں، بہار خزاں، بادل بارش، ندیاں نالے۔۔جو کچھ بھی۔۔۔ وہ لکھنے والے اس کو بہت حساسیت سے محسوس کرتے ہیں تو اس کے بارے میں لکھتے ہیں، اور ان کا مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ ان کے لکھنے میں ان کا مددگار ہوتا ہے۔۔۔وہ لکھتے ہیں تاکہ دوسرے لوگوں کو سماج کے حقیقی مسئلوں کا ادراک ہوتا رہے۔

                مطالعہ، مشاہدہ اور تجربا۔۔ ماسٹر چاچا کے الفاظ اس کے دماغ میں بہت دیر تک گونجتے رہے۔ اور بس اسی شام پہلی بار اس نے اپنے من میں کچھ جلتا ہوا۔۔ کچھ کسمساتا ہوا محسوس کیا۔۔ اس رات اس نے ایک طویل۔۔ شیطان کی آنت جتنی طویل کہانی لکھی،  (کہانی تو خیر کیا تھی، اس کی آج تک کی دیکھی ہوئی سبھی فیچر فلموں کی کہانیوں کا نچوڑ تھی) جس میں میدانی علاقے کے ایک گرم اور خشک گاؤں کی غریب بیوہ کی چھٹی نمبر اور چھوٹی اور سب سے لاڈلی بیٹی بہت ہی فیشن ایبل تراش خراش کے مہنگے ملبوس زیب تن کئے اپنے محبوب کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے برفانی پہاڑوں پر خوشی اور پیار کے نغمے گا رہی ہے۔ اور گھر میں اس کی بیوہ ماں اور پانچ بڑی بہنیں لوگوں کے کپڑے سی سی کر گزر سفر کے لئے پیسے کما رہی ہیں۔ اپنی کہانی میں اس نے غریبی کے دکھ بڑے پردرد انداز میں بیان کیے۔ اور جس میں اس نے کہانی کی ہیروئن کو اپنے  مسیحا جیسے دبنگ محبوب کی نظروں کی آنچ سے پگھلتے بہتے بھی دکھایا۔۔

                دوسرے دن، جب اس نے اپنی پہلی محنت ایک طویل کہانی کی صورت ماسٹر چاچا کو دکھائی تو وہ سٹ پٹا کر رہ گئے۔۔ لاحول ولا۔۔ یہ کیا لغو قسم کی خرافات لکھ کر لائی ہو۔ یہ کون سی دنیا ہے لڑکی؟۔وہ بری طرح جھینپ گئی۔ ماسٹر چاچا تلملا کر رہ گئے تھے۔  لکھنا چاہتی ہو۔۔ اچھا ہے ضرور لکھو۔۔ پر میری کہانی لکھو جس کی کمائی گھر کے اخراجات پورے نہیں کر سکتی، اپنی کہانی لکھو کہ کپڑوں کا ایک جوڑہ اپنی مرضی سے نہیں خرید سکتی، پڑوس والے مزدور چاچا کی کہانی لکھو جو ہل چلاتا ہے پر بھوکا رہتا ہے، کسانوں کے قصے لکھو جن کی فصلیں زمیندار لے اڑتا ہے۔۔ جاؤ۔۔ وہ رک رک کر مگر تواتر سے بولتے رہے۔ وہ جانے لگی تھی۔۔ تب انہوں نے اسے بلایا اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔۔ لکھنا ایک بہت ہی مقدس عمل ہے اس کو ایماندار ی اور زمیواری کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کرو۔ اْس نے ایک مری سی ہاں میں سر ہلایا۔

                اور  یوں اس کی پہلی کاوش پہلی تخلیق کو بہت بے دردی کے ساتھ رد کر دیا گیا تھا جس میں اس کے حساب سے تجربہ مشاہدہ مطالعہ دکھ سکھ محنت جدوجہد۔۔  سبھی کچھ تھا۔ غریب ماں کی بیوگی“دکھ”تھا، بہنوں کا کپڑے سی سی کر کمانا“جدوجہد”تھی، ساتھی کا پیار“انسانی جبلتی خواہش”تھی، خوشی اور پیار کے گیت“سکھ”تھا۔۔ کیا نہیں تھا۔۔ سبھی کچھ تو تھا۔

                کافی دنوں تک بار بار اس کے کانوں میں ماسٹر چاچا کی کراہنے جیسی چیخ گونجتی رہی۔۔ لاحول ولا۔۔

سالوں تک پھر اس نے کچھ لکھنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن۔۔کہیں  اس کے من میں سے کچھ لکھنے کی خواہش مٹ گئی ہو۔۔

نہیں، ایسا نہیں تھا۔

وہ بڑی ہوگئی، کالج بھی پاس کر لیا اور بہت سی کتابیں بھی پڑھ لیں۔

– – – – –

وقت۔۔۔ بہت سفاک حد تک بدل گیا۔۔۔ماسٹر چاچا نہیں رہے، اماں بھی چلی گئیں، سب بھائی بہن زندگی کو ڈھونڈتے ادھر اْدھر  بکھر گئے، لگا جیسے جو کچھ بھی اچھا تھا وقت کے ساتھ  ماند پڑ گیا تھا۔

                اس کی شادی ہو گئی اور  وہ چھوٹے سے گاؤں کے بڑے آنگنوں اور وسیع آسمان کو چھوڑ کر بہت بڑے شہر  کی تنگ گلیوں والے ایک ڈیڑھ کمرے کے فلیٹ میں آگئی۔۔

                زندگی میں تقریباً سبھی کچھ بدل کر اتھل پتھل ہوگیا تھا۔۔۔ بس اگر نہ بدلا تھا تو وہ اس کے پڑھنے کا شوق اور عادت۔۔

– – – – –

پھر سالوں بعد اس نے ایک اور کہانی لکھی۔۔ دراصل اب کی بار بھی وہ خود کو کہانی لکھنے سے کسی طور روک نہ پائی، اور  گھر میں آنے والے ایک سہ ماہی جریدے کو چھاپنے کے لئے دے بھیجی۔ کہانی چھاپ دی گئی تھی۔

                کچھ دنوں بعد جریدے کے ایڈیٹر کی طرف سے ایک مختصر سا دعوت نامہ اسے موصول ہوا، جس میں نئے لکھنے والوں کی ہمت افزائی کے لئے ایک کہانی کی نشست میں اسے اپنی کہانی پڑھنے کے لئے بلایا گیا تھا۔۔۔

– – – – –

                گھر کی صاف صفائی کرنے کے بعد اب وہ اپنے چھوٹے سے کچن میں چلی آئی تھی۔ برتن دھوتے دھوتے اسے کل شام کی نشست میں اس وقت کی مشہور اور ہاتھوں ہاتھ لی جانے والی بہت بڑی ادیبہ کی کہی بات یاد آگئی۔

                ادیبہ نے بڑی نخوت سے اس کے سادہ سے سراپے پر ایک بے نیاز  اچٹتی سی نگاہ پھینکتے ہوئے ماہرانہ رائے دی۔۔آج کی نشست میں اکثر پڑھی گئی کہانیاں تو میرے گھر میں برتن مانجھنے والی بائی بھی لکھ سکتی ہے۔۔ اور پھر بڑی رعونت کے ساتھ اسے اپنے مشورے سے نوازا۔  دیکھو بیبی اگر لکھنا چاہتی ہو تو کچھ ایسا لکھو کہ جس میں پڑھنے والوں کو کچھ آفاقی نظر آئے۔ وغیرہ وغیرہ

                اب کچھ آفاقی کہاں سے لاؤں؟؟  برتن دھوتے دھوتے اس نے سوچا اور اپنی مریل سی گھٹی گھٹی سی کہانی کو یاد کرکے وہ سچ میں جھینپ سی گئی۔ کیا کیا نہ خرافات بھری تھیں اس کہانی میں۔۔  غذائی کمی کا شکار اس کے بچے، صحت کے بنیادی اصولوں سے مبرا، سورج کی روشنی، تازہ ہوا اور صاف پانی سے پاک ان کا ڈربے جیسا گھر، سکولوں کی بھاری فیس، مسئلوں کی ماری ہر وقت لڑتی جھگڑتی اس کی پڑوسنیں، فٹ پاتھوں پر بھیک مانگتے بے آسرا بوڑھے، تھکا تھکا سا اس کا ہمسفر اور احساس کی تنہائی کی ماری وہ خود۔۔ اف۔۔ میں نے بھی کیا سوچ کر وہ کہانی لکھی۔ اور اگلے ہی لمحے اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔ اس بڑی ادیبہ نے سچ ہی تو کہا تھا، ویسی کہانیاں تو برتن مانجھنے والیاں ہی لکھتی ہیں۔۔۔ اس نے ہنستے ہوئے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا جن پر برتن دھونے والے صابن کی جھاگ لگی ہوئی تھی۔ وہ دیر تک کام کے ساتھ ساتھ مسکراتی رہی اور۔۔ اچھی کہانی نہ لکھ پانے کی نامرادی کا دکھ بھول گئی۔

                شام ہونے کو تھی رات کا کھانا بنانے کے لئے اٹھنے سے پہلے اس نے بے دلی سے آج کے اخبار پر اک سرسری سی نگاہ ڈالی۔ آخری صفحے کے ایک کم اہم کونے پر لگی ایک خبر پر اس کی نظریں اٹک گئیں۔ شہر کے فلاں یادگار ہال میں نئے لکھنے والوں کی ہمت افزائی کے لئے ایک ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کی صدارت نامور ادیبہ فلاں صاحبہ نے کی۔

                اپنے صدارتی کلمات میں نامور ادیبہ نے جدید کہانی کے جدید موضوعات کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ دکھ غربت بیماری اور بدحالی آج کے اہم  موضوعات ہیں اور چوں کہ لکھنا ایک بہت ہی مقدس عمل ہے تو اس کو آجکل کے نئے لکھنے والے ایمانداری اور زمیواری کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وغیرہ۔

– – – – –

                اپنے چھوٹے سے کچن میں جانے سے پہلے اس نے اپنے چھوٹے سے فلیٹ کی کھڑکی کی زنگ آلود گِرل میں ناک پھنسا کر اوپر دیکھنے کی کوشش کی۔

                بجلی کی تاروں میں بری طرح پھنسا جکڑا نظر آنے والا تھوڑا سا آسمان اس کو دیکھ کر اپنائیت سے مسکرا دیا۔ اس نے اپنے سر پر ماسٹر چاچا کا شفیق ہاتھ محسوس کیا۔

 اس نے محسوس کیا جیسے ماسٹر چاچا کی آنکھیں مسکرا رہی ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے