تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا

قسمیں کھائی تھیں

ایک برس اور بیت گیا ہے

اس ساحل پر

اس پھیلی چاندنی میں

ان امڈے طوفانوں کے سامنے

ان مچلی لہروں کے روبرو

ہم پانی میں کودے تھے

ہم لہروں سے کھیلے تھے

قہقے لگائے تھے

ہم نے وعدے کیے تھے

ساتھ جئیں گے

ساتھ مریں گے

ساتھ رہیں گے

ہم نے ریت پر نام لکھے تھے

پانیوں پر عکس بنائے تھے

رنگین پتھر چنے تھے

تتلیوں کے پیچھے بھاگے تھے

بیتاب لہر یں آتی تھیں

پاگل موجیں لہراتی تھیں

چاند کو پکڑنے کی کوشش میں

پانی گزوں اوپر اچھلتا تھا

ہر طرف اک حشر بہا تھا

فرصت بخش ہوائیں چلتی تھیں

رنگوں کا اک میلہ تھا

ایسے میں تم نے وعدہ کیا تھا

اگلے برس جب بھی بہار آئے گی

جب جب کلیاں چٹکیں گی

جب بھی پھول مہکیں گے

جب بھی خوشبو پھیلے گی

جب بھی پودوں پر ہریالی آئے گی

جب جب پرندے چہکیں گے

تم لوٹ آؤگی

تم میرے دل میں دھڑ کو گی

تم میری سانسوں میں مہکو گی

تم میری آنکھوں میں اتروگی

تم میری روح میں سماجاؤ گی

تم میرے پہلو میں رہوگی

اور

یہ ساعتیں لافانی ہوجائیں گی

یہ سانسیں امر ہوجائیں گی

لیکن تم نہ آئیں

کتنے طوفان آئے گذرے

لوگوں کے سمندر میں جانے تم کہاں کھو گئیں

ایک برس اور بیت گیا ہے

تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا

قسمیں کھائی تھیں

تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے