بچپن کی ایک یاد ہے۔ایک کچے مکان میں ایک بزرگ کچھ جڑی بوٹیاں تول رہے ہیں، پاس بیٹھی ایک خاتون ان کی مدد کر رہی ہیں اور ایک نوجوان کتاب لیے کھڑا اُن کی بات سن رہا ہے۔امی نے بتایا ’یہ جوان خیر جان ہے‘  اور وہ ان کے والدین۔اُن کے والد صاحب حکیم ہیں۔ خیر محمدسمالانی میری نانی کے بھانجے تھے، اس لیے میں انہیں کزن کے بجائے ماموں کہتا اوروہ مجھے ہمیشہ بھانجا کہتے تھے۔

جب جب میں خیر جان سے ملا انہوں نے مجھ سے پڑھائی کا پوچھا۔مستقبل کے ارادے جانے اور رہنمائی کی۔وہ بہت سوالات کرتے تھے۔ میں خیرجان سے نہیں بلکہ امی،ماموں اور ان کے عزیزوں سے پوچھتا کہ خیر جان ایسے علاقے میں کیسے پڑھ پایا۔ امی نے بتایا، محنت۔ پھر واقعات سناتیں۔ اُن دنوں کا ذکر کرتیں جب خیرجان ہمارے گاؤں کردگاپ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ان کے پاؤں میں کبھی چپل نہیں ہوتی تھی، کبھی ان کو کھانا نہیں ملتا تھا،کبھی ان پر گھر کے دروازے بند کیے جاتے تھے۔ ان حالات کے باوجود انہوں نے کبھی کسی سے ذکر نہیں کیا اور ان کی یہ عادت آخر دم تک رہی۔ وہ گھر میں کسی کو کچھ نہ کہتے۔سب سہہ لیتے لیکن کسی غم، کسی دکھ کو بیان نہ کرتے۔ ایک حکیم کی کتنی کمائی ہوگی مگر خیر جان نے اس بات کو اپنی کمزوری نہیں بنائی۔انہوں نے ایک راہ متعین کی تھی، وہ تھی محنت کی راہ۔

سنگت خیرجان نے زندگی کا ہر دکھ دیکھا۔وہ ایک حساس انسان تھے۔کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ وہ پڑھے لکھے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے۔ بیسیوں ایسے جوان ہیں جن کو نوکری دلوائی۔ انہیں گائیڈ کیا۔سینکڑوں کی مالی مدد کی مگر کسی سے ذکر نہ کیا۔جس کو بیروزگار دیکھا، لا یا اپنے گھر،کپڑے دیے، پینٹ کوٹ پہنایا اور اگلی صبح نوکری۔

گھر کے واحدکمانے والے نے ایک وقت میں ایک سے زائد نوکریاں کیں تاکہ گھر کا چولہا جل سکے اور باقی ضروریات بھی پوری ہوں۔ اس محنتی شخص نے ایک ہوٹل میں کمپیوٹر آپریٹر سے نوکری کا آغاز کیا۔کبھی درزی کا کام کیا، کبھی محنت مزدوری کی۔ کبھی اکیڈمی میں پڑھایا۔ فارما کمپنی میں میڈیکل رَیپ لگے، منیجر بنے۔ ایس ایس ٹی لگے،انگلش کے لیکچرار تعینات ہوئے، فارما کمپنی سے بطورمنیجراستعفیٰ دیا۔میڈیکل اسٹور کھول دیا۔نوکری بھی کی، گھر بھی چلایا اور ساتھ ساتھ پڑھائی بھی کی۔انگریزی ادب میں ایم فل بھی مکمل کر چکے تھے۔

وہ لکھنے اور پڑھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے مختلف آرٹیکلز لکھے۔ چندایک چھپ گئے،باقی رہ گئے۔ وہ ان کو کتابی شکل دینا چاہتے تھے۔ امید ہے ان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا۔پڑھائی سے ان کو بہت شغف تھا۔وہ کوئی بھی لمحہ ضائع نہیں کرتے تھے۔ ان کی گاڑی میں ہر وقت کوئی کتاب پڑی ہوتی۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ رات کو میں ایک مریض کی عیادت کرنے بی ایم سی ہسپتال کے شعبہ حادثات کے دروازے سے داخل ہو رہا تھا کہ ایک گاڑی پہ میری نظر پڑی۔ محسوس ہوااندر بیٹھا شخص کوئی جاننے والا ہے۔ قریب جاکے دیکھا ماموں انگریزی کا ناول پڑھ رہے تھے۔جب کوئی کتاب یہاں کوئٹہ میں نہ ملتی تو لاہور سے منگوانے کے لیے مجھے کہتے۔حال ہی میں انہوں نے انکلش لٹریچر کی کتاب منگوانے کا کہا۔جب میں اُن کو کتاب پہنچانے میڈیکل اسٹور گیا تو وہی کتاب پہلے سے وہاں پڑی تھی۔ کہا’یہ آج ہی ایک دوست نے بھجوائی ہے۔‘ میں نے کہا یہ بھی رکھ لیں۔ وہ مسکرائے۔

جس اتوار کو سنگت کی بیٹھک لگتی،جب جب سنگت نے پروگرام ترتیب دیے،ادبی سرگرمی ہوتی،سیمینار ہوتا خیر جان موجود ہوتے۔مختلف موضوعات پر بولتے اور سننے تھے۔ان کا سوشل سرکل بہت وسیع تھا۔ خیر جان کوئی بھی وقت ضائع نہیں کرتے۔سیکھنے کو مل جاتا تو سیکھتے،کسی کو گائیڈ کرنا ہو تو اسے بٹھاتے۔ ایک جگہ محفل ختم کی تو دوسری جگہ پہنچ جاتے تھے۔

اُن کوجس فورم، اسٹڈی سرکل اور ادبی بیٹھک کی تلاش تھی وہ ان کو ’سنگت اکیڈمی آف سائنسز‘کی شکل میں مل گئی۔ انہوں نے کبھی ناغہ نہیں کیا۔’سنڈے پارٹی‘ ہو یا’سنگت پوہ و زانت‘ہر نشست میں حاضر ہوتے۔ ماموں گذشتہ ایک دہائی سے سنگت اکیڈمی کے فعال رکن تھے۔ وہ سنگت اکیڈمی کی ایجوکیشن فیکلٹی کے بھی رکن تھے۔جو نوجوان، بوڑھا ملتا اسے سنگت میں لے آتے۔اُن کی ناگہانی موت سب کے لیے خصوصاً سنگت اکیڈمی کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔

وہ مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔انہیں دو دفعہ دل کا دورہ پڑا تھا۔جس کے سبب ان کا ہارٹ بائی پاس بھی ہوا۔یہ بات بہت کم لوگ جانتے تھے کیونکہ انہوں نے کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا۔بائی پاس کے وقت ان کے خاندان کو علم ہی نہ تھا اوروہ آپریشن کرانے اپنے دوست کے پاس اکیلے کراچی گئے۔سنگت خیر جان کو سب سے بڑا صدمہ اس وقت پہنچا جب ان کی گاڑی سے ان کا لیپ ٹاپ،موبائل اور ایک یو ایس بی چوری ہوگئی۔ ان کا تمام ریکارڈ کھو گیا۔

انہوں نے بہت سادہ زندگی گزاری۔پرانے جوتے سستے داموں خرید کر پہنتے تھے۔کپڑے کا ایک جوڑہ مہینوں استعمال کرتے۔ گھر میں نئی چٹائی نہیں دیکھی گئی۔لیکن رسمی اجلاسوں میں لباس کا بہت خیال رکھتے تھے اور سب کو ڈریس کوڈ کی تلقین کرتے تھے۔ اپنے کچے گھر کی تعمیر میں خود حصہ لیا۔جو کماتے وہ پڑھائی اور دوسروں کی مدد پہ خرچ کرتے تھے۔کہتے ”گھر کی زینت پہ خرچ کرنے سے بہتر ہے پیسہ بچوں کی پڑھائی پہ خرچ ہو۔“وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ وہ اب اس پوزیشن میں تھے کہ گھر کو بنا سکے، سماج کو کچھ دے سکے مگر زندگی نے مہلت نہ دی۔

وہ جب بھی گھر سے نکلتے تو والدین خصوصاً اپنی امی کو ’خدا حافظ‘ کہتے اور جب گھر آ تے تو سلام کرتے۔ اُن کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔انہیں بہت پیار کرتے تھے۔ سب کی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔ سب کو کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔لڑکیوں کو اس خاندان میں اگر کسی نے پڑھایا تو وہ خیر جان تھے۔میں نے ان کے چھوٹے بھائی سے پوچھا ’خیرجان کیا تھے؟ جواب دیا’’وہ ہمارے والد تھے۔“

رات گئے اور صبح سویرے کی ٹیلی فون کالز اکثر بری خبر لاتی ہیں۔15 مارچ 2019 بروز جمعہ ایک ایسی ہی کال موصول ہوئی۔دوسری جانب ماموں تھے۔کہا ’خیر جان فوت ہوئے ہیں‘۔میں نے خود کو سنبھالا اور دو دفعہ پوچھا کون سا خیر جان۔۔۔؟دعا کی کہ جو سن رہا ہوں وہ سچ نہ ہو مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔نماز جنازہ کے بعد قبرستان میں کچھ طالب علم میرے پاس آئے۔ان کے کاندھوں پہ بستے لٹکے تھے۔ پوچھا ’یہ وہی ٹیچر خیر جان ہیں؟‘۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ جاکے اُن کی قبر کے پاس بیٹھ گئے۔

میں نے انہیں آخری بار مسجد روڈ پر دیکھا۔ وہ اپنی گاڑی میں تھے اور میں اپنی گاڑی میں، اس لیے بات نہ کرسکے۔وہ چہرہ اب بھی یاد ہے۔ 5مئی 1977کو آنکھ کھولنے والے خیر جان نے 15 مارچ 2019 کو دنیا سے ہمیشہ کے لیے پردہ کرلیا۔ زندگی کی محض بیالیس بہاریں دیکھنے والے سنگت خیرجان کیا انسان تھے۔ وہ ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ دوسروں کے لیے جینے والے انسان۔ایک عظیم انسان۔ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں، نایاب ہوتے ہیں۔ کاش ہم اُن کی زندگی میں ان کی قدر کرنا سیکھیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے