سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ پوہ زانت نشست پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ساجد بزدار کی زیر صدارت منعقد ہوئی۔ جس طرح سنگت اکیڈمی کی روایت ہے کہ اس میں ہر ماہ کے پوہ زانت میں نئے موضوعات پر پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے اسی اس بار کی پوہ زانت میں بھی نئے رنگ نظر آئے۔ یہ پوہ زانت اجلاس ایک تنقیدی نشست تھی۔

                 پروگرام کا باقاعدہ آغاز پوہ زانت سیکرٹری ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو نے ان الفاظ سے کیا:

                سنگت اکیڈمی آف سائنسز اپنے قیام سے لے کر اب تک تواتر کے ساتھ علمی ادبی اور ملکی سیاسی افق پر ابھرنے والے حالات کا بخوبی تجزیہ کرتی آرہی ہے اور انہی پہلوؤں کو اجاگر کر کے ان پر وقتاً فوقتاً پروگرام اور سیمینار کا انعقاد کرتی آرہی ہے۔ جو اب تک جاری وساری ہے۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسز ترقی پسندانہ سوچ کے عامل اور عملی طور پر شعور کا پر چا کر رہی ہے۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی نظریاتی بنیادوں نے اسے باقی تمام تنظیموں سے منفرد کر دیا ہے اور یہ تنظیم ہمیشہ سے اپنی بساط کے مطابق معاشرے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ ہمیں اس کام کو مزید دوام بخشنے کے لیے اپنی صفوں میں تنظیم پر زیادہ زور دینا چاہیے اور اپنے اندر ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے۔  سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے دوست متواتر قلم و قرطاس کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گوکہ موجودہ دور میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے پوری نوجوان نسل متاثر ہے جس سے ہر طرف مایوسی، انارکی اور الجھن کا ماحول ہے۔ ایسی صورت میں بھی سنگت اکیڈمی آف سائنسز کا کاروان اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔

                موجودہ نظام کے اندر رہ کر خودد کو ترقی پسندانہ خیالات کا علمبردار کہنا اور علمی میدان میں تگ و دو جاری رکھنا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے جو ہماری تنظیم کا بنیادی مقصد ہے۔ اب پورا معاشرہ جمود کا شکار ہے۔ حالات نے کچھ اس طرح کروٹ بدلی ہے کہ فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔سنگت اکیڈمی آف سائنسز علمی، ادبی اور سائنسی میدان میں گزشتہ بیس برسوں سے سرگرم عمل ہے۔ اس کی بنیاد یوسف عزیز مگسی اور عبدالعزیز کرد کی جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں تخلیق ہونے والا ادب اور ادبی موضوعات پر بھی وقتاً فوقتاً سنگت اکیڈمی آف سائنسز مختلف نشستوں کا انعقاد کرتی آرہی ہے۔ ہماری آج کی نشست بھی اسی جدوجہد کی ایک کڑی ہے۔

                مختلف قلمکاروں نے اپنی تخلیقات پیش کیں جن میں خاص طور پر ڈاکٹر منیر رئیسانی، وحید زہیر، عابد میر، عبداللہ شوہازا ور نجیب سرپرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ پیش کردہ تخلیقات میں افسانہ، شاعری اور مضامین شامل تھے۔ دیگر ارکان نے ان تخلیقات پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا جن میں ڈاکٹر بیرم غوری، ڈاکٹر ساجد بزدار، سرور آغا، جیئند خان جمالدینی، ڈاکٹر منیررئیسانی، جاوید اختر، زرک بگٹی اور دیگر قابل ذکر ہیں۔

                 اجلاس کے آخر میں محمد نواز کھوسو نے قرار دادیں پیش کیں جو متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔ قرار دادیں مندرجہ ذیل ہیں۔

                 یہ اجلاس کوئٹہ ہزار گنجی میں ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ریاستی اداروں کی ناکامی سے تعبیر کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ حکومت شہریوں کے جان ومان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ یہ اجلاس سری لنکا میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتا ہے۔ یہ اجلاس ملک میں صدارتی نظام کی آڑ میں جمہوری سیاسی عمل میں مداخلت کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے فنڈز میں کٹوتی کے نتیجے میں ملک بھر سمیت بلوچستان میں تعلیمی فیسوں میں اضافہ، سکالر شپس کا خاتمہ اور نئے کیمپسز کا قیام خطرے میں پڑ چکا ہے، جو بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے لیے نہایت تشویش کی بات ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیم جیسے بنیادی حق کی فراہمی میں حکومت اور ریاست کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مسلسل مہنگائی عوام کی قوت خرید کو سخت متاثر کر رہی ہے، حکومت اس مسئلے پر فوری قابو پائے۔ یہ اجلاس پاکستانی سیاست میں در آنے والی پدرشاہی والی سطحی جملے بازی کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اسے ملکی سیاست میں بردبادی اور اخلاقیات کے زوال سے تعبیر کرتا ہے۔ ہم بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اجلاس نے ڈیرہ مراد جمالی کے عوامی مسائل کے لیے کیے جانے والے لانگ مارچ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے حکومت سے ان کے مطالبات پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے