کچھ انسان دیکھنے میں انتہائی سادہ دیہاتی غریب ان پڑھ نظر آتے ہیں۔لیکن اس کے برعکس ان کا سینہ نور سے منور ہوتا ہے۔ ایسے ہی انمول انسانوں میں شاکر شجاع آبادی ایک ہیں۔ شاکر شجاع آبادی فطری شاعر ہیں۔ شاکر شجاع آبادی نے گاؤں راجہ رام نزد شجاع آباد میں 25فروری1968کو اس جہان رنگ وبو میں آنکھ کھولی۔ انکا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے۔ انہیں پڑھنے کا بے حد شوق تھا مگر غربت کی وجہ سے وہ سکول میں پڑھ نہیں سکا جس کی وجہ سے وہ بظاہر ان پڑھ ہے لیکن انکا قلب منور ہے۔ انہوں نے 1986سے شاعری شروع کی مگر شومئی قسمت کہ 1994میں ان پر فالج کا شدید حملہ ہوا۔ اس حملے سے وہ زندہ تو بچ گیا مگر ہمیشہ کے لیے معذور ہوگیا۔ یہاں تک کہ زبان نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور اس کی وجہ سے وہ بولنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا اور درست انداز میں بول بھی نہیں پاتے۔ مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ فالج کو شکست فاش دے کر نہ صرف زندہ جی رہے ہیں بلکہ غریب عوام الناس کا بظاہر زبان نہ ہوتے ہوئے بھی زبان بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے چند ایک شاگرد رکھے ہوئے ہیں جو نہ صرف ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں بلکہ وہ جو کچھ شاعری کرتے ہیں وہ شاگرد اس کی آواز کو بخوبی سمجھتے ہیں اور پھر وہ شاعری قلمبند کرتے جاتے ہیں۔ شاکر شجاع آبادی سرائیکی زبان کے مشہور اور عوامی شاعر ہیں۔ایسے عظیم لوگ اپنے خداداد صلاحیتوں کے بنیاد پر مفلس مزدور اور کسانوں کے لیے باعث رحمت ہوتے ہیں۔ ہر صورتحال میں ان کا غمخوار مددگار ساتھی سنگت زبان اور آواز بن جاتے ہیں۔ اور استحصالی طبقہ جس میں جاگیردار سرمایہ دار استحصال کرنے والے منافقوں موقع پرستوں حاسدوں اور بخیلوں کو شکست ِفاش دینے کے لیے ہمہ وقت برسرِ پیکار رہتے ہیں۔

 شاکر شجاع آبادی کی شاعری مظلوم محکوم عوام کی اُمنگوں کی ترجمان ہے۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے غربت زدہ طبقات کی محرومیوں مجبوریوں اور بے بسی کو اُجاگر کرتا ہے۔ مظلوم و محکوم اور استحصال زدہ عوام کے جذبات کی ترجمانی کرنا ان کی شاعری کا اہم مقصد ہے۔ کیونکہ شاکر شجاع آبادی کا تعلق براہِ راست غریب طبقے سے ہے۔ وہ خود غربت کے ہاتھوں تنگ دستی کے عالم میں زندگی کے دن بسر کر رہے ہیں۔اس لیے وہ خود اس کرب سے گزر رہے ہیں۔انہیں اس کا بے حد احساس ہے۔ غریب عوام کے روز مرہ زندگی کے مسائل محرومیوں اور مجبوریوں کو وہ انتہائی قریب سے دیکھتے ہیں اور ان کے ساتھ شریک درد بھی رہتے ہیں اور پھر ان کی زبان بن کر اپنی شاعری کے ذریعے ان مسائل کو ہم سب تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ ان کی شاعری کا مرکز و محور غریب عوام ہے۔ اس لیے وہ جاگیر داروں سرداروں سرمایہ داروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور استحصالی طبقاتی نظام کے خلاف اپنی شاعری میں کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ان کے مطابق پاکستان کے اکثریت عوام کی غربت کا ذمہ دار نا انصافی استحصالی سرمایہ داری اور طبقاتی نظام ہے جس کی وجہ سے سرمایہ دار روز بروز امیر سے امیر ترین بنتا جارہا ہے اور عوام غریب سے غریب ترین ہوتی جارہی ہے۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے غریب مظلوم ومحکوم عوام کی دکھ درد اور تکالیف و مصائب کو اجاگر کرتا رہتا ہے۔ ان کی شاعری کا سب سے بڑا مقصد بلارنگ ونسل انسانیت کی خدمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کا نمائندہ شاعر کہلاتے ہیں۔ اور عوام انہیں بے حد پسند کرتی ہے۔ جب ایک شاعر عوام کی زبان بولے گا عوام کے دکھ درکو موضوع سخن بنائے گا تو وہ ظاہر سی بات ہے کہ عوام کا نمائندہ شاعر کہلائے گا۔

 اس کائنات میں سب انسان برابر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں پر ہر انسان کو برابر حق حاصل ہونا چاہیے لیکن طبقاتی اور استحصالی نظام نے عرب ہا انسانوں کا استحصال کر کے رکھا جس کی وجہ سے لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں صحت و تعلیم اور زندگی کی دوسری اہم بنیادی سہولیات میسر نہیں۔

  کہتے ہیں کہ دنیا میں کُفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن نا انصافی پر مبنی ہر گز نہیں چل سکتا۔ جب عدل درست انداز میں کام کرے گا تو ہر انسان کو آسانی سے انصاف میسر ہوگا تو معاشرے سے ظلم وزیادتی استحصالی ختم ہوجائیگا۔ معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی۔ہر انسان پُر امن اور خوشحال زندگی بسر کرے گا لیکن ہمارے ہاں انصاف کا نظام اس کے برعکس ہے ہم کسی بھی معاملے میں انصاف کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہیں۔ شاکر کا اس موضوع پر ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

اُتے انصاف داپر چم تلے انصاف وِکداپئے

اِہوجھیں ہر عدالت کوں بمع عملہ اُڈا ڈیوو

  ہمارے معاشرے کے لوگوں کے قول و فعل میں بڑا تضاد ہے ہم بظاہر دکھائی کچھ اور دیتے ہیں مگر اندر سے کچھ اور ہوتے ہیں۔ شاکر اس حوالے سے فرماتے ہیں۔

پڑھو رحمان داکلمہ بنڑ و شیطان دے چیلے

منافق توں تاں بہتر ہے جوناں کفر رکھا ڈیوو

  روزِ اول سے لیکر تاحال سچ کہنا سولی چڑھنے کے مترادف ہے انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمیشہ سچ بولنے والے سولی پر لٹکتے رہے ہیں بے درد زمانہ ہے اُنہیں بڑی بے دردی سے مارا ہے لیکن اس کے باوجود سچ کہنے والے سچ کہتے رہے۔ پھانسی کے پھندے کو محبوب کے گالوں کی طرح چومتے رہے مگر سچ سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹے کسی بھی سمجھوتے کا شکار نہیں ہوئے شاکر اس حوالے سے فرماتے ہیں۔

جے سچ آکھڑ بغاوت ہے بغاوت ناں ہے شاکردا

چڑھا نیزے تے سر بھانویں میڈے خیمے اُڈا ڈیوو 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے