ماما عبداللہ جان جمالدینی پر لکھنے کے لیے اتنا بڑا ہونا ضروری ہے۔ اسی لیے میں ماما کے حوالے سے فقط خود کلامی کر رہا ہوں۔

کیک کون گاٹے گا؟

یہ عنوان بھی ہے اور سوال بھی جو بیگم نے پوچھا جب میں نے اسے بتایا تھا کہ اس سنڈے ماما کی سالگرہ ہے۔ اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے سوچوں کے گہرے سمندر میں ڈوب سا گیا۔

آج سے دس سال پہلے دسمبر کی سرد دوپہر سنڈے کے دن جب میں ماما کے کے ہاں فیض آباد پہنچا تو ماما دروازے کے پاس علی جان کے ہمراہ اپنی وہیل چیئر پر بیٹھا میٹھی میٹھی دھوپ سینک رہے تھے۔ ماما آپ کویاد ہوگا شاید یہ ہماری پہلی ملاقات تھی اور میں نے اپنا نام بتایا تو آپ نے کہا ”میں تمہیں جانتا ہوں ساسولی“ ما ما  یہ کہہ کر مسکرا دیئے اور میں حیرت سے مسکرا بھی نہ سکا تو آپ نے کہا”تمہیں سنگت میں پڑھتا ہوں“ اس روز کے بعد کئی ہفتے تک میں دوست احباب کو فخر سے یہ واقعہ سناتا رہتا۔

اس کے بعد ہر اتوار فیض آباد پہنچ جاتا اور اکثر کچھ جلدی آجاتا پھر ماما سے خوب گپ شپ کا موقع مل جاتا۔ ماما مجھے کہتا ”تم بھی ساسو لی  میری بلہ بھی سا سولی۔ اس طرح تم میرے رشتے دار ہوئے“۔

اب اتوار کا بے صبری سے انتظار رہتا اور پھر میں اپنے دکھ سکھ، غم خوشی سب آپ کو سناتا اپنی ناکام محبت، اپنی ساری داستان اور جب کسی بھی شخص کو مورد الزام ٹہراتا یا کسی کے حوالے سے کوئی منفی بات کرتا تو آپ نرمی سے روک دیتے۔۔

ماما آپ اکثر سنڈے کے Most Regularشرکاء کی غیر حاضری پر ان کو شوکاز جاری کرتے اور اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اکثر دوست بذریعہ فون آپ تک اطلاع پہنچا دیتے اور جو نہ پہنچاسکتے انہیں شوکاز کا جواب دینا پڑتا۔

ماما آپ نرم دل کے مالک تھے اور انسانیت پرست بھی کہ کسی بھی موت کی خبر سنتے توکافی دیر تک روتے رہتے اور کافی دن تک بے سکون رہتے۔ کبھی کبھار آپ سنڈے سے پہلے کوئی خواب دیکھ لیتے تو اچھا خواب آپ کو تروتازہ کردیتا اور دوسرا آپ سے مسکراہٹیں چھین لیتا۔ ماما آپ نے جس کا بھی پوچھا ہم نے جھٹ سے بتادیا وہ زندہ ہے یا مردہ اور اگر کسی کا موت کاسن لیتے تو دیر تک روتے رہتے اور ہم خاموش کہ یہ بات بتائی کیوں اور پھر آخر اس طرح کی خبروں پر پابندی لگادی گئی۔

ماما مجھے یاد ہے وہ دن جب سائیں کمال خان شیرانی اپنے بیٹوں کے ہمراہ فیض آباد آئے تھے اور اس دن آپ بہت خوش لگ رہے تھے اور خوب گپ شپ کی مگر صرف اپنے دوست کے ساتھ اور شرکاء مجلس صرف سنتے رہے۔

ماما آپ دنیا کے واحد انسان تھے جو اپنی لائبریری سے خود ہی دوست احباب کو پڑھنے کے لیے کتابیں دیتے بدست علی جان اور پھر جب کتاب واپس لاتے تو آپ اس حوالے سے پوچھتے جس کی وجہ سے لازماً کتاب بینی کی جاتی۔

ماما فالج سے لڑتے لڑتے آپ شاید تھک چکے تھے۔ آپ کے فولادی ارادوں اور آپ کی سوچ کو اس مرض نے کمزور کردیا تھا اور پھر یوں ہوا کہ سنڈے کو آپ نے گفتگو کم کردی اور پھر کبھی بولتے کبھی خاموش رہتے اور پھر آپ نے مکمل خاموشی اختیار کرلی۔ اب آپ کسی کے بارے میں نہ پوچھتے۔ کبھی کبھار پوچھتے یا سین آتی ہے۔فلاں سورت آتی ہے اور پھر کبھی دوستین آپ کو موبائل سے تلاوت سنواتے پھر اکثر سنڈے پارٹی میں آپ خود غیر حاضر ہونے لگے اور وجہ خرابی صحت اور ہم باہم گفت وشنید کے بعد واپس لوٹ جاتے۔اس کے بعد سنڈے ہر ماہ کی وسط میں ایک بار ہوتی اور پھر رفتہ رفتہ ماما ہم سے دور ہوتے چلے گئے او رپھر ایک دن بہت دور چلے گئے۔ ماما آپ کہاں چلے گئے۔ ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر۔ ماما آج میری بچی آپ سے ملنے آئی ہے۔ اس وقت جب آپ تھے تو وہ ناسمجھ تھی آج کل وہ سمجھدار ہوچکی ہے اور آپ۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے