سرمایہ دار دنیا کے سربراہ امریکہ میں جون کے آخر میں ایک اہم واقعہ ہوا۔ وہاں کی کمیونسٹ پارٹی کا 31واں نیشنل کنونشن منعقد ہوا۔جی ہاں امریکہ میں کمیونسٹ پارٹی موجود ہے، اوروہ ہر پانچ برس بعد اپنا کنونشن منعقد کرتی ہے۔کنونشن میں  پارٹی کے عہدیداروں اور نئی سنٹرل کمیٹی کے انتخابات ہوتے ہیں اور اگلے پانچ سال کے لیے پارٹی پالیسیاں اور سیاست متعین ہوتی ہے۔اس بار یہ کنونشن یومِ مئی کے عالمی دن کے لیے مشہور شہر، شکاگو میں منعقد ہوا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ  پارٹی بہت پرانی ہے۔100 سال پرانی۔یعنی یہ 20جون 1919میں قائم ہوئی تھی۔یوں یہ ا ِس پارٹی کی 100ویں سالگرہ بھی تھی۔

تصور کیا جاسکتا ہے ان سو سالوں میں دنیا میں کمیونزم کے سب سے بڑے دشمن ملک کے اندر کی کمیونسٹ پارٹی کو سنگین ترین جدوجہد یں کرنی پڑیں۔ امریکہ جس کی سیاسی  DNA میں کمیونسٹ دشمنی کی جڑیں گہری پیوست ہیں۔ گذشتہ سو سالوں سے دنیا کے اس سب سے بڑے کپٹلسٹ ملک نے اپنے سارے دستیاب وسائل اس نظام کو برا ثابت کرنے کے لیے لگائے رکھے۔ اور عوام میں کمیونزم کو ایک بلا، بھوت، مطلق آمریت، خون کا پیاسا  اور انسانیت کا سب سے بڑا دشمن بنا کر پیش  کیے رکھا۔ چنانچہ یہ پارٹی اس لحاظ سے بالکل الگ اور ممتا ز ہے کہ وہ سو سال تک دنیا کے سب سے طاقتور حکمران طبقے سے لڑتی رہی ہے، وہ طبقہ جو اس پارٹی کو ہمیشہ تباہ کرنے پر لگا رہا ہے۔

یعنی یہ وہاں کی ورکنگ کلاس کے حقوق کی جدوجہد کا 100واں سال ہے، جمہوریت کے لیے، سیاہ فاموں کے خلاف نفرت و تشدد کے قوانین کے خلاف،اور صنفی اور ماحولیاتی انصاف کے لیے جدوجہد کا سواں سال۔ کم ہی لوگوں کو اندازہ ہوگا کہ کمیونسٹ پارٹی آف امریکہ دنیا کی ملی ٹینٹ جدوجہد کرنے والی پارٹیوں میں سے ایک ہے۔ پورے 100سال تک وہ تلخ جدوجہد میں رہی۔ یہ سال وہاں  سوشلزم کے قیام کے لیے جدوجہد کا 100واں سال  ہے جو بقول انجیلا ڈیوس  ”اُس ملک، اور نیز کرہِ ارض کا واحد پائیدار مستقبل ہے“۔

واضح رہے کہ ہر پانچ برس بعد منعقد ہونے والا نیشنل کنونشن وہاں کی کمیونسٹ پارٹی کا سب سے اعلیٰ اوراتھارٹی والا ادارہ ہے۔ وہی اگلے پانچ سال کے لیے ساری پارٹی اور اس کے ممبروں کے لیے سیاسی اور تنظیمی فیصلے کرتی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کا کنونشن (کانگریس) بہت دلچسپ طریقے سے سیاسی اورنظریاتی فیصلے کرتا ہے۔ پہلا قدم تو یہ ہوتا ہے کہ کنونشن سے کئی ماہ پہلے مجوزہ قرار دادیں اور رپورٹ پارٹی شاخوں کو بھیجی جاتی ہیں تاکہ کنونشن میں آنے والے امور پر کئی ماہ قبل ایک زبردست بحث مباحثہ چلے۔ اس بحث میں پارٹی کے سارے ممبر اور تنظیموں کو اپنی بات کہنے،اور پارٹی پالیسی، نظریہ، سیاست اور تنظیم میں تبدیلیاں تجویز کرنے کا حق ہوتا ہے۔ کوئی بھی پارٹی ممبرپروگرام تک میں تبدیلیاں تجویز کرسکتا ہے۔ اسی طرح پالیسی، ٹکٹکس اور تنظیم کے سارے معاملات پر بحثیں قرار دادیں جمع ہوجاتی ہیں۔ دوسرے مرحلے میں مرکزی قرار داد کمیٹی ان قرار دادوں کو اس طرح منظم کرتی  ہے کہ   بحث کو مزید مرکوز کیا جاسکے ۔ کوئی ترمیم آئے تو قرارداد کے بنیادی مصنف کو آگاہ رکھا جاتا ہے۔ یہ سارا عمل اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ کنونشن آنے تک زیادہ سے زیادہ اتفاقِ رائے پیدا ہوسکے۔

کیوں کہ اس قدر مفصل بحث کنونشن کے (تین چار دنوں کے)موقع پر  تو ممکن نہیں ہوتا۔ کنونشن سے قبل بحث میں سامنے آنے والی اِن قراردادوں پہ مزید  اتفاق ِ رائے پیدا کرنے کے لیے، اور حتمی اعلان تک پہنچنے کے لیے یہ تین چار دن کافی ہوتے ہیں۔

یہ کنونشن ایک ایسے موقع پر منعقد ہوا جب دنیا میں جنگ اور لوٹ مار کا سامراجی ایجنڈا جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں دہشت گردی، فاشزم اور ریفیوجی بحران عروج پر ہے۔ انسان بلکہ مجموعی طور پر زندگی کو گلوبل خطرات ہیں۔ ماحولیاتی ایمرجنسی کی سی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔ بے تحاشا ملٹرائزیشن ہے، مختلف خطوں میں بڑی جنگوں بشمول ایٹمی جنگ کے خطرات ہیں۔عراق،شام، لیبیا، اور افغانستان کی تباہی کے بعد یمن پہ سخت حملے جاری ہیں، پاکستان ایک لاکھ افراد گنوا چکا ہے، اور اب ایران نشانے پر ہے۔

دولت کی دو انتہاؤں کا بحران شدید ترین صورت میں موجود ہے۔ ہر جگہ مزدور یونینوں پر حملے ہورہے ہیں، نسل پرستی زوروں پر ہے۔ امریکہ، برازیل، پاکستان، انڈیا، ایران،فلپائن، اسرائیل اور دیگر کئی ممالک میں انتہا پسند رائٹ کی حکمرانی ہے۔ سفید فام بالادستی، پولیس تشدد، عورتوں کے خلاف نفرت اور سرمایہ دارانہ ارتکازِ زر  ایک ہیجان کی صورت انسانی سماج پہ مسلط ہیں۔

آج عالمی صورت یہ ہے کہ گیس و پٹرول کارپوریشنیں، ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس، اور فنانس کیپیٹل کا ایک حصہ عالمی سیاست کا انتہائی دایاں بازو تشکیل کرتے ہیں۔ یہی دنیا میں آج طاقت و اقتدار کا اصل مرکز ہیں۔ یہ انتہائی رائیٹ اور اس کا رجعتی کارپوریٹ سیکٹر بہت ناترس اوربہت مضبوط ہے۔ ترقی یافتہ کپیٹلسٹ ممالک میں اس کی شکست کے لیے وہاں عوام کی زبردست موبلائزیشن کی ضرورت ہے۔ وہاں بار بار الیکشنز چاہییں،گلیوں قانون ساز چیمبروں اور نظریات کے میدانوں میں زبردست جدوجہدیں چاہییں۔

امریکہ کی کمیونسٹ پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ انہی ذرائع سے اگلے سال ٹرمپ کو ہرانے کی ہر کوشش کا ساتھ دیا جائے گا۔ اس لیے کہ ”اس کی نہ تو اخلاقیات ہے، نہ دل ہے اور نہ روح ہے۔ وہ صدر کے بھیس میں ایک غنڈہ اور بدمعاش ہے“۔ اس نے تجارتی لڑائیوں میں کود کر بحران زدہ کپٹلزم کو مزید ننگا اور متشدد کردیا ہے۔ اس نے سائنسی، ٹکنالوجیکل،  آرٹی فیشل انٹلی جنس، اور کمیونی کیشن انقلاب کوجنگی سمت دے دی ہے۔ ٹرمپ لاقانونیت، دروغ گوئی، دھونس اور لاف زنی کا بادشاہ ہے۔ اس نے خود کو اور امریکہ کو عالمی انتہا پسند رائٹ اور دولتمندی کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور یوں پوری دنیا میں جمہوریت کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔

پارٹی نے اعلان کیا  ہے کہ وہ ورکنگ کلاس کی چیمپین ہے۔یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ امریکہ کی ورکنگ کلاس مشکل ترین ورکنگ کلاس ہے۔ امریکہ کی ورکنگ کلاس کثیر نسلی ہے۔ گذشتہ ستر سال سے دنیا بھر سے، بڑے پیمانے پر لوگ امریکہ منتقل ہوتے رہے ہیں۔  اپنے ملک میں وہ شخص خواہ کتنا بڑا آدمی ہو، مگر امریکہ پہنچ کر اُسے ورکنگ کلاس میں شامل ہونا ہوتا ہے۔ چنانچہ آج امریکہ کے مزدور طبقے میں افریکن امیریکن ہیں، لاطینی نژاد امریکی ہیں، ایشین امیریکن ہیں، اور گورے امریکی ہیں۔ دیگر سماجی طور پر دھتکارے لوگوں مثلاً خواجہ سراؤں،ہم جنس پرستوں اور اقلیتی گروہوں کی تحریکیں یک جہتی کے لیے اِسی پارٹی کی طرف دیکھتی ہیں۔ اتنی وسیع جمہوری الائنس والی پارٹی دنیا کے کسی اور ملک میں تونہ ہوگی۔ یہ کثیر لسانی ورکنگ کلاس سرمایہ داری کی ترقی یافتہ نئے نئے ہتھکنڈوں سے لڑتی رہی ہے۔ اسے فاشسٹ کپٹلزم کی ایک ایک نئی ادا، ایک ایک نئے اقدام اور نئے حربے سے لڑنا پڑتا ہے۔ اور سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ آرگنائز ڈلیبر، نسلی و قومی محکوموں، اور عورتوں کے اتحاد کو برقرار رکھنا۔

بحران بحران پیدا کرتا ہے۔ بحران بحرانوں کا ساتھی ہوتا ہے۔ بحران بحرانوں کو تحفظ دیتا ہے۔ ٹرمپ کی قیادت میں عالمی سرمایہ داری نظام شدید بدترین بحران کی زد میں ہے۔ اس لیے ٹرمپ کے خلاف جانا، اس کے ہر قدم کی مخالف سمت قدم اٹھانا گویا پورے کپٹلزم کے خلاف جانا ہے۔ یہی موقف ہی انٹرنیشنلزم ہے۔ ٹرمپ کی پیداکردہ ناامیدی، ہیجان، خوف، عدم تحفظ، تقسیم، فاشزم، اور لاقانونیت کے خلاف جانا ہی انسانیت ہے۔چنانچہ اگلی ڈیوٹی بھی اسی پارٹی کی ہے: انٹرنیشنل ورکنگ کلاس کی یکجہتی۔اسی لیے اس باربھی اعلان کیا گیا کہ: ”ہم یک جہتی،امن اور بقا کی گلوبل تحریک کا حصہ ہیں“۔

پارٹی کے کنونشن نے اعلان کیا کہ اکیسویں صدی کی جدید کمیونسٹ پارٹی ایک متشدد انقلاب نہیں چاہتی۔ کنونشن نے پارٹی کے اپنے سابقہ فیصلوں کا اعادہ کیا ہے کہ وہ”سیاسی طور“ پر انقلاب لانے کی جدوجہد کرے گی۔ منظم پارٹی اپنے گرد ماس فرنٹس کو یکجا کرکے جلسوں جلوسوں، تقریروں تحریروں، اور الیکشنوں کے ذریعے آگے بڑھتی رہے گی۔ اور اگر ورکنگ کلاس تنہا یہ نہ کرسکے تو  تحریک میں اتحاد کے فارمولے لا ئے جائیں گے۔ پارٹی کنونشن نے یاد دلایا کہ وہ نہ تو غیر قانونی جماعت ہے  نہ غیر قانونی بننے کی طرف جائے گی۔ ایک اور بڑا فیصلہ یہ ہے کہ امریکی کمیونسٹ ماضی کے کسی ماڈل سے جڑے نہیں ہوں گے بلکہ خود اپنے حالات کے مطابق اپنا ماڈل وضع کریں گے۔

بلوچوں کی ورکنگ کلاس پارٹی کی طرح امریکی کمیونسٹ پارٹی کو بھی اپنی تاریخ اور حاصلات پر فخر ہے۔ جن لوگوں نے پارٹی کی بنیاد رکھی، اُسے قائم رکھا اور اس کی تعمیر کر کے حفاظت سے موجودہ لوگوں کے حوالے کیا، اُن سب کا بہت احترام۔بلا شبہ ہر عوامی تحریک پچھلی نسل کے کندھوں پر کھڑی ہے۔  نوابوں لیڈروں کے کندھوں پر نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں عام محنت کرنے والے انسانوں کے کندھوں پر۔ اس لیے ان قربانیوں، جدوجہدوں، تجربوں اور اسباق سے خوب فائدہ لیا جائے گا۔ مگر یہ بات بھی مد نظررہے کہ اپنے پیش رولیڈروں ورکروں کی جدوجہد کے تمغوں سے سیاست نہیں ہوتی اور نہ ہی ماضی سے  بندھے رہنے سے آگے کا سفر کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ آج کی سیاست آج کے معاملات سے ابھرتی ہے، اور آج کے حالات آج کی جدوجہد کا سمت متعین کرتے ہیں۔ ایڈوانس عناصر پر مشتمل کمیونسٹ پارٹی کو آج کی جدوجہد کی قیادت کرنی ہے۔

پارٹی نے عہد کیا کہ وہ ہر اُس معمولی جمہوری بات کے لیے جدوجہد کرے گی جسے سخت لڑائیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ ہر اشرف المخلوقاتی چیز کے لیے۔۔۔ اس لیے کہ کوئی بھی نعمت مفت نہ ملی۔

اس بار عہدیداروں کے الیکشن میں یہ ہوا کہ پچھلا سربراہ اپنے پانچ سال پورے کر چکا اور اس باراس نے الیکشن نہیں لڑا۔ پارٹی کی تاریخ میں ایک نیا واقعہ یہ ہواکہ اب الیکشن میں ”چیئرمین“ کا پوسٹ ہی نہیں رکھا گیا۔ لگتا ہے چیئرمین کا عہدہ ہی ختم کیا گیاہے۔اب دو نئے عہدوں کے الیکشن ہوئے:دو ”کو چیئرز“۔یوں اب پارٹی کا ایک سربراہ نہیں دو ہیں۔ اس بار یہ عجیب بات بھی ہوئی کہ ایک”کو چیئر“  خاتون ہے، روسانہؔ۔اور وہ اصل امریکی نہیں بلکہ وہ مکیسی کن امیریکن ہے۔ ہمیں دوسرے ”کو چیئر“ کے سلسلے میں بھی کمال بات معلوم ہوئی۔یہ بھی گورا امریکی نہیں ہے بلکہ  افریکن امیریکن ہے۔اس جرنلسٹ کا نام جو سِمز ہے، جوؔ۔ پارٹی کے یہ دونوں سربراہ بہت عرصے سے مزدور اور جمہوری تحریکوں سے وابستہ رہے ہیں۔ کنونشن نے ان کے علاوہ  71 ممبروں کی ایک نیشنل کمیٹی بھی منتخب کرلی۔ یوں  عالمی سامراجی سوپر پاور امریکہ،کی کمیونسٹ پارٹی کی اجتماعی قیادت سامنے آئی۔ اب سو سالہ پرانی  اور شاندار ماضی رکھنے والی  ورکنگ کلاس پارٹی کی قیادت اِن کے حوالے۔

پارٹی کنونشن نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہم ہی  وہ  لوگ ہیں جو جمہوری حقوق کو وسیع کرنے اور کرہِ ارض کو بچانے کی لڑائی کی قیادت کریں گے۔ اور ہم ہی ہیں جو ریڈیکل انداز کے ایک نئے قسم کا معاشرہ وجودمیں لائیں گے جو استحصال، نفرت اور نابرابری سے آزاد ہوگا۔ کپٹلسٹ کلاس کے خلاف جدوجہد تنظیم کاری کے ذریعے گلیوں میں بھی کی جائے گی اور نظریات کے میدان میں بھی۔ پارٹی  کا وژن ہے کہ ایسا معاشرہ ممکن ہے جہاں جیلیں نہ ہوں گی،جہاں دیواریں اور سرحدیں انسانوں کو الگ نہیں کریں گی بلکہ  انسانوں کے دلوں روحوں کو ملانے والی پُل بنیں گی۔ اسلحہ ہل کے پھل بن جائیں گے۔۔۔ اور کپٹلسٹ  وہیں جائیں گے جہاں بادشاہ اورڈائنوسار چلے گئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے