11/08/1959

کوئٹہ بلوچستان

کرمفائے بندہ شاہ صاحب! اسلام علیکم رحمت اللہ

ٍ                بندہ نے گذشتہ خط میں آپ سے زمانے کے حالت بابت کچھ تلخ طریقے سے بات چیت کی۔کیسا نہ بہتر ہو جو بندہ کاتگ و دو جو آپ کے سامنے ہے، اُن کا پورا عکس اس وقت آپ کے ذہن میں آجائے۔ سارے  سیاسی سندھی آپ، شیخ صاحب۔ کھوڑو، سیٹھ ہارون، گذدر، الانا وغیرہ، مطلب ہر کس وناکس سوائے بندہ کے ایک  کیمپ میں تھے۔ بندہ اکیلا آپ کے سامنے ایک ”محاذ“ کی صورت میں کھڑا ہوا۔ ایسی تلخ اور شدت آمیز دور میں بھی بندہ نے آپ سے نیاز مندی قائم رکھی۔ آپ کے دربار سے میرے دوست مرحوم اللہ بخش کو کیسے کیسے خطاب ملے۔ خود اللہ بخش آپ کا دوست تھا۔ افسوس آپ میری عاجز یوں کو اس وقت اور اس کے بعد ہمیشہ نظر انداز کرتے رہے۔ خود خان قلات کے بارے میں آپ کے خیالات صحیح نہیں تھے۔

مجھے خبر نہیں دوسرا ایسا آدمی ہے یا نہیں مگر بندہ نے آپ اور اپنے درمیان ایسی نیاز مندی کا رشتہ جوڑ رکھا ہے جو سوائے محبت کے کوئی دوسری بات ہم کو ایک دوسرے سے نہیں جوڑتا۔

آپ کو اللہ جلد باہر لائے گا۔ ایسی جگہ پہ ہو جہاں یاد خدا اثر رکھتا ہے۔ آپ تو خود سید اور گدی نشین ہو،  سندھ کی پیروی کرتے ہو۔ سندھ اور بلوچستان میں بندہ نے یہ رسم قائم کی ہے۔ جس کی پیروی بندہ کے ہر شناسا حتیٰ کہ نواب محبوب علی خان (مگسی)، اس کے فرزند سیف اللہ خان اور خانِ اعظم تک ضروری ہوگئی ہے۔

آپ سے ملتے  دل کبھی بھی نہیں بھرا۔ ایسی شدو مد کی مخالفت کے زمانے میں بھی آپ اور بندہ کے تعلقات استوار رہے۔ اور بندہ کا زیادہ تر وقت آپ کے پاس گزرتا تھا۔

اللہ کرے آپ کو باہر دیکھیں۔ مایوسیاں اور گھبرا ہٹیں انسان کا خاصا ہیں۔ دل کو اللہ کی طرف متوجہ کرو۔ ذکرو فکر کا وہ نمونہ جو صحیح مذہبی عقائد پر بنیاد رکھتا ہے جاری رکھو۔ اللہ کے سوائے اور اللہ کے راستے کے سوائے ہر دنیاوی معاملے اور مسئلے کو فنائیت ہے۔ انسانی خیال اور منصوبے ہیچ ہیں مگر انسان کا اللہ سے تعلق ابدی اور ازلی ہے۔ اور اس کو فنا نہیں۔ آپ سیاست میں رہ کر بھی تصوف کے مسئلے سے آگاہ ہو۔

لکھتے رہو، یہ خطوط سوغات ہیں، افسوس، ان کا قدر دان کوئی نہیں ہے۔

محمد امین کھوسہ

ٌٌ***

19/08/1959

گرانڈہوٹل کوئٹہ

کرمفائے بندہ، شاہ صاحب!

افسوس، میری ہزاروں علمی تدبیریں اور باتیں آپ کے ذہن اور دل پہ اثر اندازنہ ہوسکیں۔ ان کا ایک سبب یہ ہے کہ آپ پہ وقتی صحبت اور رفاقت کا بیحد اثر پڑجاتا ہے۔ بندہ ہمیشہ اور ہر وقت آپ کے ساتھ نہیں ہوتا ہے۔ ویسے میری وابستگی آپ سے بھی کوئی رواجی وابستگی نہیں ہے۔ رواج اور رسموں کو تو میں جانتا بھی نہیں۔ ایک دفعہ جس سے وابستگی ہے تو اس سے وابستگی رہے گی۔ مگر شکر ہے کہ آپ کے کسی بھی عملی اقدام کو میں قبول نہ کرسکا۔ نیت صاف ہوتے ہوئے بھی آپ عملیات میں ہمیشہ ٹیڑھا رستہ اختیارکرتے آئے ہو جو سندھ کو نقصان پہنچاتا ہے غیروں کو نہیں۔شاہ بھٹائی کو سندھ میں جو نئی زندگی ملی ہے بندہ جانتا ہے یہ فقط آپ کی بدولت ہے۔ اس وقت بندہ نے کہا کہ ”سندھ میں شاہ عبدالطیف بھٹائی قید ہے باقی ان کا کلام آزاد ہے تو اس کا کوئی پتہ نہیں“۔

آپ جیل میں ہوں اوربھٹائی پر میلا لگے۔ سمجھ میں فقط یہ بات آتی ہے کہ بھٹائی گھوٹ کی قبر سے یہ آواز آتا ہے جو میرے قلم سے نکلتا ہے یعنی شاہ کا محب سید غلام مرتضےٰ شاہ سنائی قید ہے۔تو میلے اور ملاکھڑے کس لیے؟۔شاہ نے سندھ اورسندھیوں کے لیے گایا ہے آج سندھ اور سندھی قید میں ہیں۔ سندھ ماروی کی طرح قید میں ہے۔

محمد امین کھوسہ

 

ٌٌ***

25/08/1960

۔قبلا شاہ صاحب!۔

سال گزر گئے جب تجھے دوسری اسباق پڑھانے کے ساتھ یہ سبق بھی پڑھایا تھا کہ ”شاہ آزاد“۔ اور ”سندھ غلام“۔ متضاد معاملہ ہیں۔ حسبِ معمول اس وقت یہ سبق یعنی آپ کو یاد نہ رہا۔ اب شاہ کے مقبرے پر گدھوں اور کتوں کی آوازیں آنے لگیں اور یہ آوازیں سُن کر آپ کی روح کو ضرور راحت آئی ہوگی!۔ آپ کو کروڑوں مبارکباد جو اپنی حیاتی میں اپنی محنت کا ثمر دیکھتے ہو!۔میں وہی اللہ بخش کا دوست گہنگار ہوں۔ جس نے کافی گھنٹے آپ کو سمجھاتے ہوئے ضائع کیے۔

آپ کی صحت کا کیا حال ہے؟

شاہ کے نام پر، سندھ کی غلامی کی زنجیر کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جارہا ہے۔

محمد امین کھوسہ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے