کیسے ہنستے ہو

دکھتی سانسوں سے

زخمی ہونٹوں کی درزوں کو بھرتے

جیتے۔۔۔ مرتے۔۔۔

چلتے رہتے ہو بوجھل قدموں سے

اندھے، بے منزل، بے سمت سفر کو۔۔

کون تمہاری نیندیں، سپنے

رات کی کالی دیواروں میں

چْن دیتا ہے۔۔۔۔

دن کا کھوٹا سکہ پھینک کے کہتا ہے

اب مول بھرو یا سود چکاؤ۔۔۔۔۔

یہ بیکار تماشا دیکھتے دیکھتے

روح چٹخ جائے۔۔۔۔۔

تم کیسے بھر لیتے ہو

جلتی بجھتی آنکھیں

خوابوں سے۔۔۔۔۔  رنگوں، لفظوں سے

کچھ تصویریں بْنتے۔۔۔۔

نظمیں کہتے رہتے ہو۔۔۔

تم پھول کھلانے کی خاطر

کس آگ میں بہتے رہتے ہو۔۔

بس ایک ذرا سے روگ کی خاطر

کیا کچھ سہتے رہتے ہو۔۔۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے