بلوچستان اور بلوچ سیاست کے امام، علم و دانش کے چراغ، قومی وطبقاتی جدوجہد کے سُرخیل یوسف عزیز مگسی کو اس کی 84ویں برسی کے موقع پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے پریس کلب جعفر آباد میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ جس میں کچھی، نصیر آباد اور جعفر آباد کے سیاسی سماجی رہنماؤں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ سیمینار کی صدارت عبدالرسول بلوچ نے کی۔ مہمانِ خصوصی کامریڈ رفیق کھوسہ تھے۔ اعزازی مہمان کا مریڈ تاج بلوچ، جاگن خان مغیری اور وڈیرہ بشیر خان چلگری تھے۔ مقررین نے عزیز مگسی کی زندگی اور کارناموں پر بھر پور روشنی ڈالی۔

پہلا مقالہ نگار محمد نواز کھوسہ تھا۔ اس نے اپنا مقالہ ”یوسف عزیز  کے خطوط اس کی شخصیت کے عکاس، کے عنوان سے پڑھا جس میں عزیز مگسی کے خطوط جو اس نے اپنے دوستوں اور سیاسی ساتھیوں کو لکھے تھے کی روشنی میں اس کی زندگی کے جو پہلو سامنے آئے ان پر روشنی ڈالی گئی۔

دوسرا مقرر اُستاد اور سیاسی رہنما مہر بخش بلیدی تھا۔ جس نے نوجوانوں کو یوسف کی تعلیمات  پر عمل کی تلقین کی۔

نوجوان اور پُر عزم شاہ زیب کھوسہ نے اپنا مقالہ ”یوسفی وصیت‘‘ پڑھا۔

نصیر آباد سے تشریف لانے والے کامریڈ عبدالرزاق پندرانی نے یوسف عزیز مگسی کو خراجِ تحسین پشین کرتے ہوئے کہا کہ یوسفی کردار ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ یوسف عزیز مگسی نے مختصر عرصے میں بڑی خدمات انجام دیں۔

بھاگ کے عبدالغنی بلوچ نے یوسف عزیز مگسی پر اپنا محفل مقالہ پڑھا جس میں حالات وواقعات کی تناظر میں یوسف عزیز مگسی کی خدمت و کردار پر روشنی ڈالی گئی۔

بھاگ سے آئے ہوئے رفیق مغیری نے اپنا مقالہ  ”یوسف عزیز راہِ انقلاب“پڑھا۔ جس میں یوسف عزیز مگسی کی سامراج دشمنی اور عوام دوستی پر روشنی ڈالی گئی۔

مصروف صحافی اور سماجی شخصیت دھنڑیں بخش مگسی نے اپنا طویل مقالہ”بلوچستان کے اولین بلوچ قائد یوسف عزیز مگسی“ کے عنوان سے پڑھا۔ جس میں یوسف عزیز مگسی کے زندگی کا بھر پور احاطہ کیا گیا۔

متحرک و سینئر سیاسی رہنما کامریڈ تاج بلوچ نے اپنے خطاب میں یوسف عزیز مگسی سامراج، سرکار اور سردار دشمنی پر بات کی اور مزاحمتی کردار ادا کرنے پر یوسف عزیز مگسی کو سلام پیش کیا۔ اس نے کہا کہ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 90سال پہلے ہمارے اکابرین کھڑے تھے۔ ہم ان چیلنجز کا مقابلہ یوسفی کردار کی صورت میں کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک کا پیغام عبدالحکیم بلوچ نے پڑھ کر سُنایا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ آج یوسف عزیز مگسی ہم میں موجود نہیں لیکن ان کی فکر جو نواب ہوتے ہوئے بھی قبائلی سماج کے سخت خلاف تھے وہ ایک سچا قوم دوست انسان تھے اس کی خواہش تھی کہ بلوچوں میں تعلیم عام ہو۔ جس کا عملی مظاہرہ جامعہ یوسفیہ کا قیام ہے۔ اب ہم سب کی نظریاتی ذمہ داری ہے کہ یوسفی فکری فلسفہ کو تقویت دیں اور بھر پور جدوجہد کریں تاکہ اس کی رُوح کو سکون اور ہمیں اپنے قومی و معاشی اور ثقافتی حقوق مل سکیں۔

کامریڈ رفیق کھوسہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج سے 90سال پہلے یوسف عزیز مگسی نے بلوچ قوم میں سیاسی علم و شعور اور آگاہی کے لیے جو جدو جہد کی اور خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اس نے کہا کہ برطانوی سامراج اور سرداروں کی ملی بھگت سے بلوچ قوم کی مرکزیت ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ جس کے خلاف یوسف عزیز مگسی اور اس کے سیاسی رفقا نے بھر پور مزاحمت کی۔ بلوچ قوم کی سیاسی و علمی تربیت کے لیے جامعہ یوسفیہ ک بنیاد رکھی۔

عبدالرسول بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ نوابی گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود یوسف عزیز مگسی نواب و سردار مخالف تھا، نوابی و سرداری  نام سے اُسے نفرت تھی۔ وہ عوام دوست انسان تھا۔ اس نے اپنی مختصر زندگی میں بلوچ قوم ووطن کے لیے قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں۔ اس نے کہا کہ یوسف عزیز مگسی نے اپنے علاقے میں عوامی فلاح و بہبود اِصلاح اور سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے عملی اِقدامات کیے۔ ہمیں اپنے اکابرین کی نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی سر زمین اور قوم کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے۔

سیمینار کے آخر میں قرار دادیں منظوری کے لیے پیش کی گئیں۔ سیمینار کی کارروائی عبدالحکیم بلوچ نے چلائی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے