جیکب آباد 03/09/1960

حُسن اور خوبصورتی کا تذکرہ ایک خط میں فرمایا تھا،حُسن اور رعنائی بھی ایک اضافی چیز ہے۔ ہر حالت کا حُسن اپنا خود آپ کا وجود سراپا زیبائش ہے۔ مگر وقتی طور ان سے کچھ ایسی لغزشیں سرزد ہوئیں جس کی وجہ سے خود آپ کے حُسن اور رعنائی والے پیکر اور وجود کو نقصان پہنچا۔ حکمت و ہوشمندی یا وقتی عقلمندی سے کام لیا جاتا تو یہ لغزشیں بھی نہ ہوتیں۔ سندھ کے حالات کے مطابق حُسن اور آرائش کا تقاضا یہ تھا کہ آپ کے وجود سے وقتی اور بازاری کام نہ لیا جائے۔ وہ قبیح اور بدنما تھا۔طبعِ سلیم آپ سے یہ توقع نہیں رکھ سکتا۔یہ کجی اور کج روی حُسن اور خوبروئی کے سبھی پہلوؤں کو مجروح کرتا ہے۔ جب ہماری طرف کا سارا جہاں آپ کے وجود کا دشمن ہوا توبندہ (میں)نے نہایت بے باکی سے آپ کے لیے موثر مقابلہ کیا۔ اس لیے  نہیں کہ آپ کو کوئی احساس ہو۔ مگر آپ کی اہلیت اور وجودی خوبیوں کے تقاضوں کو نہ دیکھنا کو ر ذوقی ہے۔میں حُسن بین نگاہ لے کر دنیا میں پیدا ہوا ہوں۔ مالک نے مجھے محبت پرست دل، اور نگاہ عشق آراء عطاکیا ہے۔ آپ کو ”اغیار“ میں اور  ”اغیار“ جیسا کرتے دیکھ کر میرے دل کو جو صدمے پہنچے ہوں گے اس کا اندازہ آپ جیسا پیار بھرا آدمی اور سید زادہ کرسکتا ہے۔

ہمارے دوسرے بھی کافی مخالف تھے جن کے ساتھ جو ہوا،یا جس نے جو کیا وہ آپ سے مخفی نہیں۔ میری نظروں میں سندھ آپ کا ہے۔ اور آپ سندھ کے ہیں۔ سندھ کے حُسن اور زیبائش کا ذکر میرے قلم سے ہونا مشکل ہے۔ یہ مقدس اور پاک سرزمین بڑی اہمیت والی ہے۔ اس کا بڑا درجہ ہے۔ فکر اس کا اور درویشی ایک اعلےٰ حُسن کا نمونہ ہے، ازلی اور ابدی ہے۔

اسی حُسن ِ ابدی اور ازلی کی کرنیں اس وقت تک سندھ کی سرزمین سے دنیا پر روشنی ڈالتی ہیں۔ انہی روشن کرنوں کو پھیلانے کا کام ابھی باقی ہے۔

وہ اسی بنیادی انسانی مسُلے کا ایک قسم کا حل تھا جو سیاسی نمونوں اور طریقوں سے میرے بوڑھے مولانا، حضرت مجاہد اعظم عبیداللہ سندھی نے دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہا۔سیاست ان معنوں میں عین عبادت اور جہاد ہے۔ حق سراپا حُسن اور باطل سراپا قبح۔اور یہ بد زیبی جو مٹانے سے نہ مٹ سکے۔حق اور باطل کا مقابلہ دیرینہ ہے:

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفوی سے شرار بُوالھبی!۔

آپ کی تڑپ دیکھتے حُسن ازلی کے پرستاروں سے وقتی باطل پرستیاں بھی بندہ سے برداشت نہ ہوئیں۔ خیر وہ دیر تک چل بھی نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ جیسے بندہ نے شروع میں جانا۔ وہ بیشمار طاقت اور وقت کے پجاری جنہوں نے آپ سے فائدہ لیا۔ وہ در ہم برہم ہوگئے۔ آپ پیکر صداقت، حق پرستی اور روشنی کا مینارہ ہوکر چمکنے لگے۔ مگر یہاں بھی آپ سے کچھ فروگذاشتیں ہوگئیں۔ آپ خود ایک مستقل شمع راہ ہیں۔ اِدھر اُدھر دیکھنے میں ہی نقصان ہے۔ آپ کا عمل بھی الگ راہ کا متقاضی ہے۔

تو تو جلتی ہے کہ پروانوں کو ہو سوداتیرا

میں فروزاں ہوں کہ میری فطرت میں ہے سوز

 

آپ کا سوز وگداز کوئی نمائشی نہیں ہے۔ آپ سطحی اور رواجی آدمی نہیں ہیں۔ اس لیے  ہر وہ حرکتیں جو رواجی طور پر آپ سے خود ہونگی یا کرائی جائی گی سے آپ کے اندرونی جذبے کی ترجمانی نہ ہوگی۔ بلکہ آپ کے تب و تاب کی مخالفت میں ہوگی۔ آپ کے اندرونی جذبے اور ظاہری عمل میں یکسانیت پیدا کرنے کی تمنا بھی ایک قسم کی ہنر مندی مانگتی ہے۔ الحمداللہ یہ ہنر مندی بندہ میں ہے۔ ہر کجی اور ہر نقصاندہ حرکت کی یا مخالفت کی یا اس کے ساتھ شامل نہ ہوا۔ اگر آپ صرف یہ دیکھتے کہ بندہ کی رضا مندی آپ کی عملی کاروایوں میں نہیں ہے تو ان کو قبول نہ کرتا۔ بندے کا آپ سے لگاؤ آپ کی اصلی ہنر کی وجہ سے ہے۔ آپ نے اس لگاؤ اور تعلق کے اصول کو قبول نہیں کیا۔ میری مرضی اور رضا مندی اپنے لیے ضروری قرار دیتے تو اِس وقت کی تکلیف اور اذیت سے بندے کو بچاتے۔

آپ جیسے صاحب حُسن کمال آدمی عام جام پیدا نہیں ہوتے۔ اور ان سے بھی اگر رواجی آدمی نما گدھوں کا کام کیا جائے تو ظلم وستم اور کسے کہتے ہیں۔

ٍ             یہ متضاد معاملات پیش نہ آتے۔ قربانی اور ایثار بڑے انسانی جوہر ہیں۔ مگر ان کا ناجائز اور غلط جگہ پر استعمال گناہ عظیم ہے۔

آپ کی طبیعت عجیب اور پیاری ہے۔ ایک حد تک قصور میرا ہے۔ جو میں ہر وقت آپ کے ساتھ موجود اور قریب نہیں رہا ہوں۔ جو تعلق میرا آپ سے ہے۔ وہ خود آپ کو مجبور کرتا۔

بندہ محمد امین کھوسہ

 

03/09/1960

قبلا شاہ صاحب!۔

ایک خط نما دستاویز پہلے بھیج چکا ہوں۔ بندہ خود ڈاکٹروں کے زیرِ علاج ہے۔ گردے کے درد کا دورہ ہے۔ ”اصلی انگریزوں“ کے دور میں ایک دفعہ جیل میں ہونے کے بعد یہ درد شروع ہوا۔ ”اصلی انگریز“ ہمیں صرف اپنی اندرونی جذبات کی وجہ سے ناپسند تھے۔ ورنہ برائیوں میں خوبیوں کے انبار کے مالک تھے۔سودے میں نقصان میں ہم رہے۔

آپ کو جلد جیل سے نکلنا چاہیے۔کوئی طریقہ عمل میں لاؤ۔ جنرل ایوب خان نہ خود اتنا دشمنی رکھنے والا ہے اور نہ ہی اسے اس قسم کی ضرورت ہے۔ اُس تک خبر پہنچاؤ۔ گھومنے پھرنے کا انتظام کرنے میں آئے۔مجھے یقین ہے اس سے کسی معقول طریقے سے مطالبہ کیا جائے تو بغیر دیر کیے عُذر مان جائے گا۔ افسوس تو یہ ہے کہ بات کرنے والا بھی ایسا کوئی موجود نہیں۔ سید میراں محمد شاہ آج کل کہاں ہے؟

سندھ کی چوٹی کا ایک قبل آدمی ہے۔ مگر غیر معمولی ڈر اور خوف نے اسے بیکار بنا دیا ہے۔

آپ نے خود کو اسی ماحول میں ڈال کر جس میں جیل بھیجنا ضروری ہو سندھ کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ ”خود ساختہ“ پروگراموں کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ جن کا نہ آپ سے واسطہ ہے، نہ سندھ سے واسطہ۔نہ زمین سے واسطہ نہ آسمان سے واسطہ۔وہ جب آپ کے ساتھی ہونگے،لیڈر اور مشیر ہونگے تو اور کیا ہوگا؟۔

یاد ہے یا بھول گئے ہو تیرے سیاسی مشوروں کا کیا نام رکھا تھا؟ ”چنڈو خانو“۔ہر کوئی سلفی کا کش لگا کر مست ہو کر کھڑا ہے۔ کوئی معقول، کوئی اعتدال پسند تجویز یا طریقہ کار؟۔ سارے سندھ کو اپاہچ کردیا ہے۔ تندرست، حقیقت پسند،واقعات اور حالات سے مطابقت والی باتیں کی جاتیں۔ آسمان کی بات زمین پر اور زمین کا قصہ آسمان پر، ان سے یہی حاصل ہوگا جو دیکھتے ہو۔!!

سندھ میں سوائے چند آدمیوں کے اس وقت کچھ بھی نہیں ہے۔ مولوی حقانی لیگ والا مرحوم ومغفور کیسا اچھا آدمی تھا۔کہتا تھا کہ سندھ تین آدمیوں کا نام ہے: شیخ عبدالمجید، جی ایم سید اور آپ۔ خیر میں تو ایک دیہاتی آدمی ہوا۔ مجھے رہنا چاہیے۔۔۔اب بھی اپنے پہ رحم کرو، سندھ پر ترس کھاؤ،پتنگ اڑانا چھوڑ دو۔

مجھے یہ یقین ہے کہ آپ نے پھر اس طرف رُخ کیا تو کامیاب ہوجائیں گے۔ آپ ہر حال میں مرد میدان ہیں۔ سُست یا کمزور آپ کو کون بولے؟۔یعنی اپنی آزادی کے لیے گھومنے پھرنے کے انتظام کی صورت خود آپ ہی سے نکلنا ہے۔ بہت کچھ جھیلا ہے۔مگر ایک جھیلناایسا ہوتا ہے جو ضروری ہوتا ہے،مگر ایک جھیلناخواہ مخواہ والا معاملہ ہوتا ہے۔ میری نظر میں آپ کا یہ جھیلنا بے کار ہے۔

جس چھوٹے ملک میں آپ جیسے بے انتہا صلاحیتوں کے مالک اپنی قدرتی صلاحیتوں اور ماحول سے بے پرواہ ہونگے تو نتائج ایسے ہی نقصان انگیز ہونگے۔

آپ سید ہیں۔ سختی گرمی کو برداشت کر کے نئی فضا پیدا کرنا جانتے ہیں۔ آپ کے خون میں وہ سب کچھ ہے۔ جو دوسرے صدیوں میں بھی نہ سیکھ سکیں۔ لوگوں کی خدمت اور دستگیری آپ کا حقیقی ورثہ ہے۔

نیاز مند محمد امین کھوسہ

 

05/09/1960

قبلا شاہ صاحب!۔

ایک تازہ مکتوب میں آپ کو اپنی زندگی کا احوال لکھنے کا مشور دیا تھا۔ جتنا جلدی ہوسکے یہ کتاب تیار ہونی چاہیے۔ آپ کی زندگی ایک رواجی آدمی کی زندگی نہیں ہے۔ عجیب معاملہ ہے۔ آپ سراپا سندھ ہیں۔ سند ہیت کی یہ تصویرمٹانے والے کو مٹا چھوڑے۔ عمل کا ایک ایسا پہلو جس سے سندھ تنزل کی بظاہر آخری منزل پر پہنچے!۔گویا آپ نے خود اپنی صورت اور شکل مٹانے کا کام کیا ہے۔ دوسرا کوئی آدمی اس محاذ کو شاید توڑنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ میں نے سندھ کے نام نہیں بلکہ سارے ہندوستان کے نام، سندھ بچاؤ بند تیار کیا تھا۔

آپ نے دیکھا اور محسوس کیا ہوگا کہ میں نے کون کون سے اجزا لگاتار جدوجہد سے تیار کیے تھے۔ آگے چل کر آپ کی امداد میں ہماری فیکٹری سے تیار کیے لوگ آپ کو کام آئے۔

اصل میں تو آپ خود سندھ پر غضب کی صورت میں نازل ہوئے۔ خود جانتے ہو کہ کتنی منتیں اور عاجزیاں آپ کو کیں۔ آپ کو خود نظر آئے گا صرف پیچھے پلٹ کر دیکھو کہ سندھ کیا سے کیا بن جاتا، اگر آپ صرف ضِد چھوڑتے۔ جمنا کے کنارے، لعل قلعہ تک اللہ بخش کے روپ میں سندھی آواز کو پیچ در پیچ راہوں سے پہنچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ آزاد کانفرنس سوائے اللہ بخش کے ایک فضول مجموعے کا نام تھا۔ میں کانگریس کا برائے نام طرفدار نہیں تھا۔ میں ایک نرالی اور تازہ شگفتے ملک گیر اور قوم ساز رنگ ڈھنگ سے کانگریس کی معاونت کو استعمال کر رہا تھا۔ خود آپ ”میرے“ تھے۔ کتنی تکلیف اور اذیت مجھے پہنچتی ہوگی جب آپ میری عرض کی گئی باتوں کو نظر انداز کر کے دوسروں کے ساتھ شامل ہوئے۔

المختصر ”جی ایم سید“ کی سوانح حیات میں اِس باغ بہشت سندھ کا نقشہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ لکھو جلد لکھو۔ جی ایم سیدموجودہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اپنی سوانح لکھنا فرض سمجھو۔ صحت کا خیال رکھو۔ زیادہ موسیقی بھی رگوں کو نرم رکھتی ہے۔ کسی اچھے یونانی حکیم کو بھی دکھاؤ۔

معاف کیجئے،میں آپ کو ماضی کی اصل تصویر دکھانے میں ترد د اور پس و پیش نہیں کرتا۔ کیونکہ آپ کے پاس مورخانہ قلم بھی ہے۔ سندھ جیسے ملک کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے ایسے لوگوں کے قلم سے نکلنے جواہر ریزوں کا بڑادخل ہوتا ہے۔ جنہوں نے اپنے دل دماغ اور خون جگر سے سندھ کو بچانے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے اس لحاظ سے آپکا درجہ بہت بلند ہے۔ قلم آپ کا اور افسانہ آپ کا تو اس سے زیادہ اور کیا چاہیے؟۔ آپ صاحب ہنر اور میدان کے رزار کا واقف کار فنکار ہو۔ قلم اور جان کی بازی کے ہنر کو ایک ہی وجود میں قائم رکھا ہے۔

تاریخ جی ایم سید ہمیشہ پیدا نہیں کرتی۔ ایک عجیب موڑ،موقع اور وقت پر آپ سے لغزش ہوگئی پھر اسے سُدھار نے کے لیے کیا نہ کیا؟ آج بھی آپ کی تحریریں گواہی دیتی ہیں مگر ہر کہ شُد شُد۔

محمد امین کھوسہ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے