گاؤں کے نزدیک پہنچ گیا تھا۔ سورج پہاڑوں کی اوڑ غائب ہوچکا تھا۔ میں تھکا ماندہ۔ سر پر کتابوں کا بستہ تھامے شلوار کے پائنچے ایڑیوں سے اوپر کھنچے ہوئے۔ جوتے اور پاؤں گھٹنوں تک دھول سے اٹے ہوئے جلدی گھر پہنچنے کے لیے لمبے لمبے قدم اٹھائے ہوئے چلا آرہا تھا۔ اچانک یا دآگیا کہ بوڑھی عارب کی ماں کی چیز لانا آج بھی بھول گیا۔ بڑا دلگیر ہوا۔ پریشان اس لیے کہ خرچی جو ملنی تھی۔

بوڑھی عارف کی ماں گزشتہ دو تین ہفتوں سے باری والے بخار میں مبتلا تھی۔ گاؤں کے حکیم سے دوچار پڑیاں لے چکی تھی۔ مگر کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ کل جب میں سکول جانے کے لیے تیاری کر رہا تھا تو اُس وقت وہ آئی اور کہا بیٹا میرے لیے پیر سائیں سباجھے (حلیم طبع) کی کنڈی (درخت کی قسم) کے درخت کی چھال ضرور لے آنا۔یہ بخار یوں چھوڑنے والا نہیں ہے۔

بوڑھی بخار کیوجہ سے سوکھ کر دیا سلائی بن گئی تھی۔ رنگ بھی پیلا پڑ گیا تھا۔ آنکھیں اندر کی طرف دھنس گئی تھیں۔ بات بات پر ہانپنے لگتی تھی۔ میں نے اُس سے وعدہ کیا کہ ضرور لاؤں گا۔ مگر سکول سے واپسی کے وقت بھول گیا۔ آج صبح آکر بڑی منتیں کیں۔ لالچ بھی دی کہ چھال لاؤ گے تو خرچی بھی زیادہ دوں گی اور ایک آنہ پیشگی ہاتھ میں تھما دیا۔ زیادہ تاکید کی وجہ یہ تھی کہ کل اُس کے بخار کی باری تھی۔ اس نے چاہا کہ چھال آج ہی بازوں پر باندہ دوں تاکہ کل اُس بخار سے بچ جاؤں۔

یہاں گاؤں کے لوگ اکثر پیر سباجھے کی کنڈی کے درخت کی چھال استعمال کرتے تھے اس کو ہر بیماری کا علاج سمجھا جاتا تھا۔ جب کسی دوا کا اثر نہیں ہوتا تھا تب لوگ کنڈی کی چھال لال کپڑے میں لپیٹ کر بازو پر تعویز کی طرح باندھ دیتے تھے۔ اس چھال کی شفا دور دور تک مشہور تھی۔کہتے ہیں کہ بعض لاعلاج بھی اس چھال کی وجہ سے شفایاب ہوگئے تھے۔ لوگوں کو بڑا یقین اور اعتماد تھا۔ کہانی اس طرح مشہور ہوئی کہ ایک مرتبہ پیرسباجھے نے اس کنڈی کے درخت کے نیچے آرام کیا تھا۔ وہیں ایک نابینا عورت کو اپنی کرامت سے نور سے منور کردیا تھا۔ اس کے بعد ہی اس کو یہ شرف حاصل ہوا تھا۔ جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں۔ اُس درخت کو چاروں طرف باڑ دی گئی تھی۔ عقیدت مند جھاڑ و دیگر میدان صاف کر جاتے تھے۔ درخت کی ٹہنیوں پر کئی لال رنگ کے کپڑوں کے ٹکڑے بندھے ہوئے تھے۔

پیر سباجھے والی کنڈی کا درخت سکول کی طرف جانے والے راستے پر تھا۔ میرا ا سی راستے پر ہر روز آجا جانا رہتا تھا۔ اس لیے گاؤں کے لوگ مجھے ہی چھال لانے کے لیے کہتے تھے۔ جب میں ان کا یہ کام کرتا تھا تو وہ ولوگ مجھے اکنی یا ٹکہ خرچی دے دیتے تھے۔ دوسرے دن بھی عارف کی ماں کے لیے چھال لانا بھول گیا تھا۔ اب میں اُسے کیا منہ دکھاؤں گا۔ وہ میری راہیں تک رہی ہوگی۔ وہ بڑی مایوس ہوگی اور میں بھی انعام سے محروم ہوجاؤں گا۔

میرے لیے اب دو میل واپس جانا دشوار تھا۔ میں ایک جگہ ٹھہر گیا۔ دماغ میں وہی باتیں گھوم رہی تھیں وہیں پر ذہن میں ایک خیال ابھرا۔ اس خیال سے میں نے اطمینان کا سانس لیا اور پھر خو د ہی مسکرانے لگا۔ لیکن پھر یہ خیال ابھرا کہ ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ گناہ ہے میرے اندر یہ ہلچل کچھ لمحوں کے لیے جاری رہی۔ سامنے ایک قدم کے فاصلے پر کنڈی کا درخت موجود تھا۔ فیصلہ کر کے میں اس کی طرف بڑھااور پھر ادھر اُدھر نظر دوڑائی مگر کوئی دیکھنے والا نہیں تھا۔ میرا دل دھڑکتا رہال۔ چھال اتارتے ہوئے میرے ہاتھ کاپنے لگے تھے۔

بوڑھی عارف کی ماں میرے گھر میں بیٹھی میری راہیں تک رہی تھی مجھے دیکھتے ہی جلد اٹھی۔ بیٹا میرا کام کر کے آئے ہو۔ بغیر کچھ کہے میں نے چھال اس کی طرف بڑھا دی اُس نے چھال کو چوما چونی نکال کر میری ہتھیلی پر رکھ دی اور دعائیں کرتی ہوئی اپنے گھر کی جانب چل پڑی۔ اس کی دعائیں مجھے بد دعاؤں کے تیر بن کر چھبنے لگے۔ میں تو حراس اور خوف میں مبتلا رہا۔ خیالی خوف میرا گھیراؤ کرتے رہے۔ پیر سبا جھے کی اس کنڈی کے متعلق کئی رواتیں مشہور تھیں۔ کہا گیا کہ جس نے بھی اس دخت کی بے حرمتی کی یا کھانے کے لیے سگری (پھلیاں) توڑیں یا بکریوں کے لیے اس کی ٹہنیاں کاٹنے کی کوشش کی تو وہ اندھے ہوگئے تھے۔ یا پھر ان کا منکا ٹوٹ گیا تھا،یا اعضا سوکھ گئے تھے یا پھر دیگر مصیبتوں میں مبتلا ہوگئے تھے۔ اس کئے علاوہ بھی کئی کرامتیں چھوٹے بڑوں کی زبان پر تھیں۔ میں عام کنڈی کے درخت کی چھال کو پیر سباجھے والی کنڈی گردان کر پچھتانے لگا اور خوف کیوجہ سے کانپنے لگا تھا کہ مجھ پر کوئی نہ کوئی مصیبت نازل ضرور ہوگی۔ اُس رات میں مشکل سے سو سکا تھا۔ نیند میں بھی ڈراؤنے خواب دیکھتا رہا۔ صبح کو سکول جاتے ہوئے اُس کنڈی کے نزدیک سے گزرنے پر کوئی آفت نہ آجائے۔ چار دن اس پریشانی میں گزر گئے مجھے یقین تھا کہ کوئی مصیبت ضرور آئیگی۔نہ جانے کتنے اندیشے دل میں پیدا ہونے لگے۔ ایک اندیشہ کہ میں امتحان میں فیل ہوجاؤں گا۔ سبق تو ویسے بھی مشکل سے یاد رہتے تھے۔

ایک دن چلتے چلتے اچانک ٹھوکر لگی۔ ایک دم ذہن میں خیال آیا کہ پیر سباجھے کی بھیجی ہوئی آفت کوئی نہ کوئی اعضا توڑ دے گی مگر اپنے آپ کو سنبھالا اور دیکھا کہ ان جانے خیال کی وجہ سے راہ میں پڑے پتھر سے ٹھو کر کھائی تھی۔ اسی دوران عارب کی ماں بھی نظر نہیں آئی۔ سوچنے لگا کہ میری بے ایمانی کیوجہ سے شاید زیادہ بیمار پڑ گئی ہوگی۔ آخر پانچویں دن ارادہ کیا کہ آج پیر سبا جھے کی کنڈی سے چھال اتار کرلے  آؤں گا اور آکر عارف کی ماں کو دوں گا اور حقیقت سنا کر معافی مانگوں گا۔

اس دن صبح جانے سے پہلے جب اماں مکھن کے ساتھ روٹی کھلاتے ہوئے کہہ رہی تھی پتہ نہیں دو چار دنوں سے تمہیں کیا ہوگیا ہے روٹی بھی اچھی طرح نہیں کھا رہے ہو۔ عین اُسی وقت عارب کی ماں بھی ہمارے گھر آگئی ۔ بالکل تندرست مجھے دیکھتے ہی کہنے لگی بیٹا شاباش ہو تمہیں۔ میں نے اُس دن ہی چھال کپڑے میں لپیٹ کر بازوں پر باندھی تھی۔ بخار نے نام ہی نہیں لیا۔ صدقے جاؤں پیر سباجھے کے نام پر۔میں ہکا بکا ہو کر اُسے دیکھنے لگا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے