سرمئی پہاڑوں کی پراسرار

خاموشی کے پیچھے

سورج ڈوبتا ہے دھیرے سے

ایک حسن ہے اس گھڑی میں

بھگو ٹھوڑو کی اس شام میں

ایک صدیوں کی خاموشی ہے

سمندر سے بھی گہری ہے جو

جس میں ادراک کے پل بھی ہیں

پھول کی بند پنکھڑیوں کی مانند

چھپا کوئی راز بھی ہے

ایک گمشدہ تہذیب کی بازگشت ہے

جو پہاڑوں کے مٹیالے

رنگ میں رنگ کر کوئی پرانی

یاد دہراتی ہے چپکے

سرمئی رنگ میں شفق کی لالی

جیسے کجراری آنکھیں ہوں

درد کے گداز میں

بھگو ٹھوڑو کی اس شام میں

وجد کا خمار ہے اس گھڑی میں

سندھو جس کے پاس بہتی ہے

لکی اور آمری کی ثقافتوں کا سنگم

خاموشی بھی  ہمکلام ہے

کوئی تو دیوانگی ہے اس مجاز میں

بھگوٹھوڑو کی اس شام میں

بچپن کی چند یادیں ہیں

تتلی، چاند اور ستارے ہیں

بادلوں جیسا جیون ہے

کوکتی ہوئی ریل چلتی ہے

بھگوٹھوڑھو کے پہاڑوں سے

ذہن میں کھویا ہوا  بچپن

زندہ ہوجاتا ہے اس پل

اب روڈ کے کنارے چلتی

گاڑی میں سے جب سرمئی

پہاڑوں کو دیکھتی ہوں

تو ماضی حال اور مستقبل یکجا

ہو جاتے ہیں۔

وقت جیسے کہ بیتا ہی نہ ہو

لمحے رکے سے محسوس ہوتے ہیں اس پل

ایک پراسرار خاموشی ہے

جس میں وقت بیت چکا ہے

وقت گذرتا جارہا ہے

ایک سکونت ہے ہر طرف

سرمئی پہاڑوں کی پراسرار خاموشی کے پیچھے

سورج ڈوبتا ہے دھیرے سے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے