۔۰۲ اگست کی دوپہر تھی لیٹی ہوئی کسلمندی سے ایک کتا ب کی ورق گردانی کررہی تھی۔موبائل نے برقی مسیج کی آمد کی اطلاع دی۔فون اٹھا کے دیکھا تو یہ اس کا میسج تھاایک ایسا نمبر مجھ سے مانگا گیا تھا جس کا میرے پاس ہونے کا کوئی جواز بھی نہیں بنتا تھا۔چالیس سال بعد یہ رابطہ حیران کن سے زیادہ پریشان کن تھا۔جواب تو دے دیا کہ یہ نمبر انوار صاحب سے مل جائے گالیکن سو چنا ایک قدرتی امر تھا۔ابھی حیرت واستعجاب کے عالم سے گزر رہی تھی۔ کہ ایک اور پیغام موصول ہوا،جس میں ڈاکٹرصاحبہ کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا اور ایک مضمون لکھنے کی فرمائش کی گئی تھی۔یہ افسری اور دفتری طرز تخاطب حیران کن سے زیادہ تکلیف دہ بھی تھاکہ وہ میرا کلاس فیلو تھا۔مضمون لکھنے کی حامی بھرتے ہوئے میں نے لکھا اس قسم کے آداب و قواعد کی عادی نہیں ِ۔میری زندگی ان تکلفات سے عاری ہے۔۔۔۔بہرحال جب واسطہ ہوا تو رابطہ بھی ہو گیا۔دو دن بعد وہ فون پہ براہ راست مجھ سے مخاطب تھا۔پوچھتا  ہے کتنی دیر بعد بات ہورہی ہے۔کیا جواب دیتی؟؟۔ا یک گہرا لمبا سانس لے کے خاموش ہو گئی۔اس نے خود ہی جواب دیا چالیس سال بعدبا ت ہو رہی ہے۔پیلوں میں آپ کے بھا ئی کے بارے پڑھا تھابہت تکلیف دہ حادثہ تھا۔ساتھ ہی اس نے اپنے جواں سال بیٹے کی نا گہانی موت کا ذکر بھی کیا۔غم دوراں کی مختصر روداد کے بعد پانچ منٹ اور پچاس سیکنڈ پرمحیط گفتگو کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔۔۔۔۔۔اب میں اور میری سو چیں۔۔۔ سوچ رہی تھی کہ زندہ رہنے کاخراج کسی نہ کسی طور ادا کرنا ہی پڑتا ہے۔بہر حال رب کریم اُسے اپنی زندگی میں خوش رکھے۔آمین۔اب  بات چیت کاسلسلہ جو شروع ہوا تو سچی بات یہ ہے کہ اچھا تو لگا لیکن ڈسٹرب بہت ہوگئی۔بھلا زندگی کی اس سٹیج پر گڑھے مردے اکھاڑنے کی کیا کیاضرورت تھی؟۔ہو سکتا ہے کبھی اسے اس معاملے میں کوئی اضطراب ہوا ہو،لیکن مجھے ایسے لگ رہا تھاجیسے قسمت اب محاکمہ اور محاسبہ کررہی ہے۔مجھے  میرزا ادیب کے وہ الفاظ یاد آرہے تھے جو انھوں نے اپنی آپ بیتی حسرتِ تعمیرمیں لکھے ہیں۔۔۔۔۔۔

”  ماضی تو ہمارے لئے ایک ایسا تودہ برف ہے۔جس کاصرف ایک حصہ سمندر کی سطح کے اوپر دکھائی دیتا ہے اور باقی اس کا سارا وجودنیچے گہری اور منجمدتاریکیوں میں ڈوبا رہتا ہے اور پھر یہ بھی دیکھیے کہ یہ تودہ برف  ہے جو ہرآن بڑی آہستگی سے غیر محسوس طور پر اپناآپ پانیوں میں گم کرتا رہتا ہے۔وقت کے سمندر میں ماضی کا بڑے سے بڑاپہاڑ بھی چپ چاپ نیچے ہی  نیچے ڈوبتا رہتا ہے“۔

نجانے کہاں ڈوبتا رہتا ہے۔کہیں نہ کہیں کوئی کنکر کوئی ریزہ رہ جاتا ہے جو زندگی میں کبھی نہ کبھی وجود کو زخمی کرتا رہتا ہے اور پھردرد کی ٹیسیں چین نہیں لینے دیتیں

آدھی رات اِدھر اور آدھی رات اُدھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔دکھ نے دکھ سے بات کی،بن چٹھی بن تار۔۔۔۔۔۔محفل میں دیوانے آئے

تارے گن گن رات گذاری                           یاد کئی افسانے آئے

اس نے کہا ملناضروری ہے۔   ”راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے“  کیا ضرورت ہے ملنے کی؟۔ میں نے جواب دیا۔اب تو ویسے بھی زندگی کی وہ منزل ہے جہاں۔۔۔۔۔

حسرت نہیں۔ارمان نہیں آس نہیں  ہے                یادوں کے سوا کچھ بھی میرے پاس نہیں ہے

ایک بات جو میں  نے محسوس کی۔ نجانے کیوں احساس ہوتا ہے کہ اس میں خود پرستی آگئی ہے۔بہرحال چالیس برس کا عرصہ کوئی تھوڑا تو نہیں ہوتا۔ایمرسن نے ٹھیک ہی تو کہا تھا”صرف پتھر ہی اپنے آپ کو نہیں بدلا کرتے،انسان کے خیالات میں تبدیلی آتی ہی رہتی ہے“۔۔۔۔چلو ٹھیک ہے نہ ملو،رابطے میں رہیں گے۔مجھے تصویریں بھیجو۔میں نے جواب دیا بھیج دوں گی۔کہتا تھا وہ خوبصورت لڑکی کل بھی میراآئیڈیل تھی،آج بھی ہے۔ حالانکہ کل جو گزر گئی اس میں تو اس نے کبھی  کوئی با ت کی ہی نہ تھی۔ خیر  میں نے کہا وہ لڑکی تو ماضی کے خرابوں میں دفن ہو گئی ہے۔اسے مت ڈھونڈو۔خوش رہو۔۔۔۔۔

خیرتصویریں بھیج دیں تاکہ نوحہ پڑھ کے ان کو بھی ماضی میں دفن کردے۔لیکن جواب ملا ”تصویر تجھ سے زیادہ خوبصورت ہے،چلو جی ابھی بھی دل جلانے کی بات کرتے ہو۔۔۔۔۔۔

اب آتی ہوں اصل بات کی طرف۔کیسے یہ کہانی پروان چڑھی؟۔وہ جو عدالتوں  میں حلف لیتے ہیں ”جو کہو نگی سچ کہونگی  ِسچ کے سوا کچھ نہ کہو نگی“۔دوسال کے تدریسی دور میں کوئی ایک بھی توایسی بات نہیں ملتی جس کواپنے اعمال نامے میں شامل کرسکوں۔بہت ذہن کو کھوجنے کے بعد جو مجھے یاد ہے من و عن لکھ دوں گی کیونکہ یوینورسٹی چھوڑنے کے بعد اس واقعے میں کچھ ایسی رنگ آمیزی ہوئی کہ میں اپنے نام نہاد عشق کی کہانیاں سن کے حیران رہ جاتی تھی صفائیاں دیتی کوئی جرم نہیں کیا۔اگر کوئی ایسی بات ہوتی تو شادی کر لیتی۔لیکن مخلوق خدا کو کون راضی کر سکتا ہے۔ دو سال کے عرصے میں دو  تین باتیں  ایسی یادآتی ہیں، جو معمول سے ذرا ہٹ کے تھیں۔گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں۔ ہوسٹل خالی ہوا ہم سب گھروں کو چلے گئے۔چھٹیوں کے دوران ساہیوال گھر پہ اس کا خط ملا۔لکھا تھا خانم  خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

اگلی دو لائنوں  میں لائبریری کی کتابوں کا ذکر تھا۔۔۔۔۔دوسری بات۔۔۔ ایک با ر ہم لڑکیوں کا گروپ کلاس میں کھڑا تصویریں  دیکھ رہا تھا۔سر ابھی کلاس میں نہیں ٓائے تھے،لڑکے ویسے ہی دیر سویر سے آتے تھے۔وہ کلاس روم میں آیا ہمیں دیکھ کر ادھر ہی آگیا۔میرے ہاتھ میں میری پاسپورٹ سائز بلیک اینڈ وائٹ تصویر تھی۔ ابھی کلرڈتصویروں کا رواج نہ ہوا تھا۔اس نے تصویر پکڑی دیکھی اور جملہ کسا”تلاش گمشدہ کا اشتہار“  تصویر واپس پکڑائی اور چلا گیا۔ میں ہر زاویے سے اپنی تصویر دیکھتی رہی کہ یہ اتنی بری تو نہیں، بلکہ بعد میں جب کبھی اس تصویر کو دیکھتی تو تلخی ابھرتی کہ اس نے ایسے کیوں کہا۔۔اب ایک بات اور یادآرہی ہے۔ہم لو گ فائنل میں تھے۔چناب  پہ ٹرپ جارہا تھا۔بس لڑکیوں اور لڑ کوں سے بھری ہوئی تھی۔ڈرائیور کے پیچھے دو سیٹوں پر ہمارا ہوسٹل والیوں چار کا گروپ بیٹھا تھا۔خوب شور ہلہ گلہ تھاکچھ لوگ گا رہے تھے ہم بھی تالیاں بجا رہے تھے۔کچھ احساس نہیں کہ دوپٹہ سر سے اتر گیا ہے۔اس نے دیکھا اور پنجابی میں کہا”چودھرانی جی  دوپٹہ تے کر لوو“ غیر متوقع طور پہ گھبرا کے جلدی سے دوپٹہ سر پہ لے لیا۔نسیم میری گھبراہٹ پہ ہنس پڑی  اوربس بات ختم ہو گئی۔۔۔۔امتحان ہوئے سیشن آف ہوا سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔انہی دنوں میری فیملی ساہیوال سے ملتان شفٹ ہو گئی۔ میں نے بی ایڈمیں ٰٓدا ٰژں

داخلہ لے لیا،کلاسز کا آغاز ہو چکا تھا۔ایک دن جبکہ کلاس ابھی شروع نہیں ہوئی تھی،میں نے اسے کلاس روم کے دروازے پہ کھڑا دیکھا۔ اس نے اشارے سے مجھے باہر آنے کو کہا،میں ذرا چونکی ساتھ بیٹھی دوست سے کہا۔یہ میرا کلاس فیلو ہے مجھے بلا رہا ہے۔ آؤ اس کی بات سن لیتے ہیں۔وہ بھی اٹھ کر میرے ساتھ چلدی۔ باہر کھلے آسمان تلے سنگی بنچ ُپڑے تھے۔ایک پر میں اور میری دوست بیٹھ گئے۔ سامنے بنچ پر وہ بیٹھ گیا۔میں منتظر تھی،کہیے کیا کہنا ہے۔وہ چند منٹ کشمکش میں رہا اور پھر نہیں کچھ نہیں کہتے ہوئے اٹھ کے چلا گیا۔غصہ تو بہت آیا کہ یہ کیا بات ہوئی۔ لیکن وقت کی دھول میں یہ سب کچھ دبتا چلا گیا۔ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف ہو گیا۔البتہ بعد کے زمانے میں مجھ سے اس کے بارے لوگ وقتََا فوقتََا مجھ سے پوچھ لیتے۔ظاہر ہے میرا جب کوئی واسطہ تعلق ہی نہیں تو میں کیا بتا سکتی تھی؟۔ البتہ کچھ ذہنی الجھن ضرور ہوتی۔اب جب کہ چالیس سال بعد کسی فون نمبر کے بہانے تقریب کچھ بہر ملا قات ہوئی تو میں نے کہالو گوں کی  زبانوں پر جو کہانیاں تھیں وہ سب کیا تھا۔۔ غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے    کچھ ہم سے کہا ہو تا کچھ ہم سے سنا ہوتا

اس نے جو جواب دیاوہ بھی سن لیں۔کہتا ہے کہ اس وقت تمہارا نشہ ہی کچھ اور ہوتا تھا میری مالی حالت کچھ ایسی مستحکم نہ تھی۔چلو جی ہمارے حصے میں عذر آئے جوازآئے اصول آئے

مرد ذات بھی اللہ نے خوب بنائی ہے دل کہیں بہلا تا ہے لارے کہیں لگا تا ہے، شادی کہیں اور جا کے کرتا ہے۔ستم ظریفی یہ کہ بیس تیس سال بعدبچوں کی لائن لگا کے آجاتا ہے۔اپنی مظلومیت کا رونا روتا ہے اور وہ بے وقوف عورت پھر اس کے فریب میں آجاتی  ہے۔مجھے یہاں استاد محترم اشرف صاحب  یاد آگئے۔فکشن کا پیپر پڑھاتے ہوئے اکثر ایک جملہ دہراتے۔”عورت کے کانوں میں رس گھو لتے جا ئیے عورت آپ کی ہوتی جا ئے گی“۔جہاندیدہ استاد تجربے کی باتیں کیا کرتے تھے نا۔جبکہ یہاں تو اس نے کبھی امرت گھولا ہے نہ رس۔۔۔۔اس دور سے زیادہ بات چیت تواب فون پہ ہو جاتی ہے۔

اب اس کا اصرار ہو تاہے کہ مجھے اپنے بارے میں بتاؤ۔ کیا بتاؤں؟جو بیت گیا سو بیت گیا۔ کیوں پوچھتے ہو؟۔کیا ریسرچ کرنا ہے یا تھیسس لکھنا ہے۔ظاہر ہے اب تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گذر چکا ہے۔باقی کیا بچا ہے؟ ایک نحیف و نزار سائبان تلے بیٹھی ہوں۔ڈرتی ہوں نجانے کب تیز ہوا کا جھونکا اسے اڑا کر لے جا ئے پھر کیا ہو گا۔۔۔۔۔

ویکھ نجومی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہتھ دیاں  لیکاں

بختاں والی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گل تے دس

ہن تے ساہ وی۔۔۔۔۔۔۔۔۔مکدے جاندے

جیون داکوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ول تے دس

لو جی ختم کہا نی ہو گئی۔۔۔۔۔

بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ

ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے