ہر خطے کے مشاہیر کو نصابی ضرورتیں، قومی اُمنگیں یا حاکموں کی وقتی ضرورتیں پیدا کرتی ہیں، پالتی پوستی ہیں اور بعض جگہ اُن پر چڑھاوے بھی چڑھاتی ہیں۔ کبھی اِنہی میں سے یا اِن کے مدمقابل حریف  کچھ قبیلوں، نسلوں، علاقوں کو عزیز ٹھہرتے ہیں وہ اُنہیں ہیرو بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اُن سے ماورائی او صاف منسوب ہوتے ہیں لیکن تاریخ کے بھنڈار خانے کبھی قیامت ڈھاتے ہیں۔ وہ کچھ رازوں پر سے پردہ اُٹھا دیتے ہیں تب بطل پرستوں کی سراسیمگی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ جیسے برس ہا برس ہم جیسے مدرسین نے مولانا ظفر علی خان کی سامراج دشمنی کے بارے میں پڑھا اور پڑھایا مگر’الحمرا‘ لاہور جیسے دائیں بازو کے ایک رسالے میں، ایک مضمون نگار نے جوشِ عقیدت میں حیدر آباد دکن کے آرکائیوز میں سے کچھ مکتوبات نکال کر شائع کردئیے۔ جس کی معنویت سے شاید مدیرِ محترم بھی آگاہ نہیں تھے۔ مضمون نگار کے مطابق مولانا نے نئے نظام سے درخواست کی تھی وہ ناصرف اُن کی پینشن کو بحال کریں بلکہ اُن کے بیٹے مولانا اختر علی کی بھی پینشن مقرر کریں۔ مگر اُنہیں نئے نظام کی طرف سے مطلع کیا گیا کہ اُستاد محترم انگریزوں کے خلاف لکھنے کے سبب آپ کی پینشن معطل کی گئی تھی۔ اب اگر آپ نے اُن کے خلاف لکھنا چھوڑ دیا ہے تو اپنے علاقے کے انگریز ڈپٹی کمشنر سے لکھوا کر بھیجیں کہ اب آپ سرکار کیلئے خطرہ نہیں اور یہ کہ اُنہیں آپ کی پینشن کی بحالی پر اعتراض نہیں تو حیدر آباد کی سرکار سے آپ کی پینشن جاری ہوجائے گی۔ دردناک حقیقت یہ ہے کہ مولانا ظفر علی خان نے یہ سب کچھ کیا۔ اسی طرح ضیاء الحق کے دور میں ہم جیسے فیض احمد فیض کے پرستار کبھی یہ ماننے کو تیار ہی نہ تھے کہ وہ ارباب نیاز کے ذریعے ضیاء الحق سے ایک ملاقات کرچکے تھے۔ ہم نے جناب فیض کی ایک اور دیوانی، اپنی استانی اور اطلاعات کی ماہر کشور ناہید سے تصدیق چاہی تو اُس نے کہا کہ اصل میں اُن کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نیشنل کالج آف آرٹس کی پرنسپل بننا چاہتی تھیں اس لئے بچی کی فرمائش پر اُنہیں یہ ’مکروہ‘ملاقات کرنی پڑی۔ یہی نہیں رخشندہ جلیل نے اب جب ترقی پسند ادبی تحریک پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ریکارڈ کی مدد سے کچھ ایسی باتیں لکھی ہیں کہ پنڈی سازش کیس کے بارے میں ہمارا بیانیہ کچھ متزلزل ہوگیا اور اس صورت حال میں ’نمک پاشی‘ کیلئے ہمارے بزرگ دوست فتح محمد ملک نے ایک کتاب بھی لکھ دی، بد قسمتی سے ملک صاحب کے ’نظامِ استدلال‘ پر ایک دو سوالات میں نے اپنے فکری قائد احمد سلیم سے پوچھے تو انہوں نے مطلوب حد تک تلخی اور ترشی سے بات کی جس سے میں ان کی محبت اور احترام میں لطف اندوز ہوا۔

ماجرا یہ ہے کہ تاریخ کے اوراق صرف کرسی نشینوں کو نہیں نصاب سازوں اور’مشاہیر سازوں‘ کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ اسی لئے تاریخ کے بہت سے گواہوں کو قتل کیا گیا، تاریخی کتابوں کو نذرآتش اور اُس کی راکھ کو بھی  دریا بُرد کیا گیا۔ میں آٹھ دس برس قبل ملتان کی تاریخ کے تناظر میں ایک سٹیج ڈرامہ ’النگ،تیر اور پیالہ‘ لکھ رہا تھا تو اس خطے کے اپنے ہیرو نواب مظفر خان کے بارے میں کچھ کتب اور تذکرے کھنگالے تو جہاں سکھوں کے خلاف اُن کی مزاحمت اور شہادت کا ذکر پایا وہاں اُن کے کچھ بیٹوں اور قریبی عزیزوں اور اِرد گرد کے سرائیکی نوابوں اور جاگیرداروں کی مصلحت پسندی  کے کچھ اوارق بھی سامنے آئے۔ مگر ان میں وہ سردار کوڑے خان بھی تھا جس نے نواب آف بہاولپور سے اپنی خدمت کے عوض جاگیر پا کر مظفرگڑھ اور گردونواح کے بچوں کی تعلیم کیلئے وقف کردی حالانکہ وہ خود اَن پڑھ تھا۔ اسی طرح نواب مظفر کے احترام کے دِیئے کی لَو میرے دل میں اُس وقت پھڑپھڑانے اور لرزنے لگی جب ملتان کے شیعوں اور اُن کی تعزیہ داری کے بارے میں نواب  مظفر کے سخت احکام میری نظر سے گزرے۔ بہتر ہوگا میں یہاں ملتان کے بعض بزرگ صوفیاء کا ذکر نہ کروں جو حکام رَس تھے، تجارت کرتے تھے اور دِلی دربار کی سازشوں میں شریک بھی ہوتے تھے۔ مگر ہمارے جیسے لوگ وقتی طور پر دو چار کاغذ آگے پیچھے کر بھی دیں گے تو ہماری عقیدت کے رُوبرو تاریخی شعور یا تنقیدی شعور اپنی جاہ وجلال کے ساتھ طلوع ہوکر رہے گا۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے