کتاب اور انسان کا تعلق صدیوں پرانا ہے یہ ایک ایسا تعلق ہے جیسے روح کا جسم کے ساتھ۔ انسان کتاب کے بنا ادھورا ہے نا مکمل ہے۔ انسان کا وجود بنا شعور کے کھوکھلا ہے۔۔

کتاب ایک دھن ہے۔کتاب انسان کی دوست ساتھی ہمدرد ہے۔کتاب کے ورق ورق میں ایک مہک ہے کتاب اندھیروں میں روشن صبح کی امید ہے۔۔

پر اکیسویں صدی میں انسان کتاب سے کافی حد تک دور ہوچکا ہے۔کتاب اپنی مقبولیت کھو رہی ہے مختلف بک فاونڈیشنز کی جگہ اب کپڑوں اور جوتوں کی دکانیں لے رہی ہیں۔ یہ انسانوں کی ذہنی پستی اور علم سے بے راہ روای کا نتیجہ ہے۔آج کا نوجوان کتاب لینے سے کتراتا ہے۔پر مہنگے موبائل فون لینے کے لے سب سے آگے رہتا ہے۔جدید دور میں ٹیکنالوجی نے جتنی ترقی کی اتنا ہی انسانی کو ذہنی اور شعوری طور پر اپاہج کردیا۔۔

کتاب کی جو طلب تھی وہ اب گوگل لے چکا ہے۔ نوجوان کتاب کے ورق الٹانے سے اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں اور شارٹ کٹ کے راستے ڈھونڈتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اسی لیے ہمارا معاشرہ افراتفری کا شکار ہے زہنی پستی ہی معاشرے کو تباہی کے دہانے پہ لانے کا سبب بنتی ہے لوگ حقیقت سے دور بھاگتے ہیں اور سچائی سے کنارہ ہی علم اور شعور کی راہ میں پستی کا سبب بنتا ہے۔۔

جدید دور کے تقاضے ہی کتاب کی مقبولیت میں کمی کی ایک ٹھوس وجہ ہیں۔۔

اگر ہم کتاب کی مقبولیت دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں اس سلسلے میں نوجوانوں کی ذہنی تربیت کرنی ہوگی۔ اس میں والدین استاد دونوں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔۔

نوجوان کو حقیقی علم اور شعور حاصل کرنے کے لیے  سکول کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر کتاب دوستی کے حوالے سے مختلف سیشنز منقعد کرنے ہوں گے۔۔

نوجوان کی ادبی تربیت کے لیے ادبی سیشنز کا انعقاد کیا جائے۔۔

ادب کے شعبہ کی طرف سے ادب کی اہمیت سے متعلق پروگرام منعقد کیے جائیں۔۔

سرکاری سطح پر کتاب دوستی اور کتاب کی مقبولیت کے لیے پروگرام منعقد کیے جائیں۔ اس طرح معاشرے میں مثبت تبدیلی کا عنصر بھی آئے گا اور کتاب کی مقبولیت بھی واپس آئے گی۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے