سیاہ رات سے بھی تاریک

کینوس کے

پس منظر میں

لال رنگ میں ڈوبی

اک دھندلی سی تصویر ابھرتی ہے

کون ہے یہ بد نصیب

پکارنے والا کہتا ہے

یہ انصاف کی لاش ہے

گاڑھے خون کے چھینٹے

گہرے نشان چھوڑ گئے ہیں

سفیدی پھیرنے والوں نے

جھوٹ کا پانی ملا کے

کینوس کو صاف کرنا چاہا

پر انصاف کی لاش

بھاری ہوتی گئی

سارے نشان مٹا کے بھی

کچھ کھرونچے باقی رہ گئے

جاگتی آنکھوں والوں نے

سارا منظر

تعویز بنا کے پہن لیا

ابھی صرف ان کی آنکھیں ہی جاگی ہیں

باقی جسم غفلت میں ڈوبا ہے

مفاد پرستی اور

خود غرضی کی مکڑیوں نے

ذہن پر جالے بُن ڈالے ہیں

الفاظ بے ربط ہیں

مگر بے ہنگم شور

جلد ہی تیز آوازوں میں بدل جائے گا

اور پھر ایک چیخ سنائی دے گی

تب انصاف کا بول بالا ہو گا

کیونکہ

کڑوے سچ نے

تریاق

ڈھونڈ لیا ہے

نوٹ: صلاح الدین کے پولیس کسٹڈی میں اذیت ناک موت کو ہارٹ اٹیک قرار دیئے جانے پر لکھی گئی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے