جزیرہ جو یہاں تھا

جاوداں تھا

سمندر میں کھڑا تھا

ہوا اور ضرب طوفاں سے

کبھی لرزا نہیں تھا

تھپیڑے اور کٹاو  جسم میں گھستے

جگہ پانے کی سازش میں

سمندر کے شریک کار ہوتے

جزیرہ

سازشوں سے بھی

کبھی بکھرا نہیں تھا

فلک کی دشمنی سہتا

جزیرہ

بے اماں طیور اور بھٹکے ہووں کا

آخری مسکن رہا تھا

جزیرہ راستہ تھا

رات کے پچھلے پہر بھی جاگتا تھا

 

جزیرہ۔۔۔۔۔۔۔    جو نہیں ہے

جزیرہ جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنا ہے دیوقامت مچھلیوں کے

پیٹ میں معدوم ہوتا جا رہا ہے۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے