سرمدی آگ تھی

یا ابد کاکوئی استعارہ تھی، چکھی تھی جو

کیسی لوتھی!۔

خنک سی تپک تھی

تذبذب کے جتنے بھی چھینٹے دئے

اوربڑھتی گئی

دھڑکنوں میں دھڑکتی ہوئی

سانس میں راگ اورسرْ سی بہتی ہوئی

پھول سے جیسے جلتے توے پرہنسیں

ننھے ننھے ستاروں کے وہ گل کھلا تی ہو

موْ بہ موْرچ گئی

سوچ کا

حرف کا

نظم کا

خاک دانِ زمستاں

خنک آگ میں گھرگیا

وقت چونکا

رْکا اورپھر

سرمدی آگ میں تھم گیا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے