سمندر کی قربت میں وسعت ہے۔ ایسی کشادگی، جس میں پوری زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ یہ سمندر بھٹائی کی شاعری کا بھی محور رہا ہے۔ گو کہ سر سامونڈی شاہ جو رسالو میں شامل یہ سْر کوئی راگنی نہیں ہے، تاہم سمندر کی وسعت اور گہرائی کو سْرسامونڈی کا نام دیا گیا ہے۔

یہ ایک نہ ختم ہونے والا انتظار ہے۔ جس کا دوسرا کنارہ نہیں ہوتا۔

گر قدم بر چشمِ من خواہی نہاد

دیدہ در رہ نہم تامی روی

  (سعدی)

یہ انتظار کی کشتی ہے اور وقت ایک بے کراں سمندر کی مانند ہے۔

یہ بحری تاجروں کے کارواں ہیں

جو لمبے سفر پر روانہ ہوں گے

تیرے حق میں غنیمت یہ گھڑی ہے

کہ پھر یہ لمحے شاید ہی پلٹ آئیں

                یہ سمندر گہرائی کا استعارہ ہے۔ کائنات کے اسراروں میں سے ایک ہے۔ فطرت انسانی کی طرح عمیق ہے۔ ہزاروں بھنور اس کی لہروں میں مچلتے ہیں۔ لہٰذا صاحب سمندر کی زندگی کے لاتعداد رنگوں سے مزین جذبوں کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ بھٹائی کی شاعری میں یہ سمندر وحدت بھی ہے تو انتشار کا مرکز بھی۔ جس کا ہر لمحہ پر خطر ہے۔ بظاہر سطح پر سکون نظر آتی ہے۔ مگر اس ارتکاز کے اندر ایک گہری ہلچل موجزن ہے۔ گویا کہ سکوت نظر کا دھوکا ہے۔ خاموشی بے اثر نہیں بلکہ اس کے اندر کشش ثقل کا اصول کارفرما ہے۔

                جو سامنے ہے وہ سچ نہیں ہے۔ سچائی کچھ اور ہے، جو نظر سے اوجھل ہے۔نفی یا اثبات سوچ کے دو رخ ہیں۔ ارتکاز بھی ایک کیفیت ہے، جو انتشار پر حاوی ہو جاتی ہے۔ لہٰذا نفی دائمی رویہ نہیں ہے، البتہ اثبات کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اندھیرا روشنی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

                لہٰذا یہ تمام تر مظاہر فطرت شاہ صاحب کے لئے سچائی تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ سْر سارنگ بارش کے مناظر کا خوبصورت اظہار ہے۔   سْر سری راگ ہے، جو پوربی ٹھاٹھ کی راگنی کہلاتی ہے۔ جسے سراگ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ راگ شام چار بجے سے رات آٹھ بجے تک گایا جاتا ہے۔ یہ سْر سمندر کی پرکیف زندگی کا آئینہ ہے۔ جس میں بحری مسافروں، ملاحوں اور کشتیوں کا ذکر ملتا ہے۔ سمندر گہرائی، خطرات و پراسراریت کا استعارہ ہے۔ سمندر کی زندگی پُر تغیر اور بے یقینی کی حامل ہے۔ اگر ملاح موسموں کی تبدیلی اور پانی کی گہرائی و طغیانی سے واقف نہیں تو زندگیوں کا رکھوالا نہیں بن سکتا۔ اسے دور اندیشی خطرات سے نبرد آزما ہونے کا ہنر عطا کرتی ہے۔ سر سامونڈی، سر سری راگ اور سر گھاتو سمندر کی پرخطر زندگی کی ترجمانی کرتے ہیں۔

                شام سے لے کر رات تک سمندر ایک عجیب کیفیت میں ہوتا ہے۔ یہ بدلتے اوقات کار ذہن، جسم و روح پر مختلف اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ بات فقط حساس دل جانتا ہے، جو فطرت کے قریب تو ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بحری مسافر، ملاح، کشتیاں زندگی کے استعارے ہیں۔ یہ انسانی عزم، عمل اور جدوجہد کی تمثیلیں ہیں۔ یہ ملاح کی ہمت و دور اندیشی کا عجب امتحان ہے۔ کیونکہ رہبری آزمائش ہے۔

                عمل کے معیار پر پورا اترنا، راستہ دکھانے والے کی ضرورت ہے۔ کردار کی اس کسوٹی پر پورے اترنے والے رہنما بہترین مثال قائم کرتے ہیں۔ صحیح رہبر وہ ہے، جو انسانی زندگیوں کا محافظ ہو۔ ذہن و روح کی آبیاری کرتا ہو۔ رہبری خطرات کا سامنا کرتی ہے۔ لہٰذا شاہ جو رسالو کے یہ سْر بارشوں سے لے کر ندی نالوں و سمندر تک موضوع اور انداز بیاں میں گہری معنویت رکھتے ہیں۔ پانی زندگی عطا کرتا ہے۔ اس کا عمل ہے سیراب کرنا۔ جو چیز اپنی صفت میں صحت بخش ہے، اس کے عطا کرنے کے عمل میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے۔ یہ روح کی راحت بھی ہے تو آنکھوں کی ٹھنڈک بھی۔ یہ علم کا استعارہ ہے اور علم کے حصول کی تمثیل بھی۔ ہر لحاظ سے پانی انسان کے ذہن، جسم و روح کی ضرورت ہے۔یہ قطرے سے گہر بنتا ہے۔ انفرادی خاصیت رکھنے کے باوجود اجتماعیت کا مربوط حوالہ ہے۔ جز، کل کا حصہ ہے۔ اجتماعی عمل کی نفی نامکمل ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ قانون فطرت کو جھٹلا کے انسانی زندگی خوشی یا خوشحالی کے راستے نہیں اپنا سکتی۔ سْر سامونڈی سمندر کی زندگی کا تسلسل ہے۔ جو انتظار کی تمثیل ہے۔سمندر عطا کرتا ہے۔ اس کی گہرائی میں عمیق خزانے چھپے ہیں۔ یہ قدیم زمانے میں رابطے اور کھوج کا واحد ذریعہ تھا۔

ایسے موتی ہیں تیرے دامن میں

تاک میں جن کی اک زمانہ ہے

رہزنوں کا بھی وہی مسکن

موتیوں کا جہاں خزانہ ہے

                چاند اور سمندر کا ذکر بھٹائی کی شاعری میں جابجا ملتا ہے۔ جتنا گہرائی میں انسان اترتا چلا جائے گا، زندگی کا عرفان و آگہی اسے عطا ہوگا۔ ادراک کے بند دروازے ایک ایک کر کے اس پر کھلتے چلے جائیں گے۔ تلاطم خیز موجوں کی یورش میں سنبھل کر ناؤ کو آگے بڑھاتے رہنا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کئی سفینے ڈوب جاتے ہیں۔ جہاز غرق ہوتے ہیں۔ ایک بھنور کے بعد دوسرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس سمندر کی ہوائیں پرکیف بھی ہیں۔ یہ غفلت کا مسکن بھی ہے۔ اس کی خوبصورتی، کیف و مستی خود فراموشی کی طرف لے کر جاتی ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنا:

اس میں آتے ہیں نت نئے طوفان

اے مسافر یہ بحر ہستی ہے

جو سمندر کے سفر پر نکلے ہیں۔ پیچھے منتظر نگاہیں اور ترستا ہوا دل چھوڑ گئے ہیں۔ یہ انتظار ہر محبت بھرے دل کا مسکن ہے۔ساحلوں کی ہوائیں دور جانے والے پردیسیوں کو بلاتی ہیں۔

لبوں پر بحر ذکر کا مسلسل

دلوں میں موج و طوفاں کی صدا ہے

دیار دوست سے پیغام آیا ہے

کوئی سوئے طلاطم کھینچنا ہے

                شاہ صاحب کی شاعری میں پانی کا ذکر جابجا ملتا ہے۔ کیونکہ سیراب کرنے کے ہنر کے پیچھے تشنگی کا ایک طویل صحرا ہے۔ جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ گہری جستجو کبھی سیراب نہیں ہوتی۔ انتظار کے سامنے راستوں کا حسن ختم نہیں ہوتا۔ بقول شاہ صاحب کے سراب کی خود فریبی بھی مزا دیتی ہے۔ جوتشنگی طلب کے من کو جلا رہی ہے۔ اسے ہزاروں سمندر بھی نہیں بجھا سکتے۔

                سمندر، انسانی زندگی کا ترجمان ہے۔ سمندری کیفیات: طوفان، طغیانی، طلاطم، بھنور، اور تغیر انسانی زندگی کے جذباتی حادثات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ شاہ صاحب فطرت پرست تھے۔ فطرت کا جوہر الہامی اور وجدانی ہے۔ جس کے اندر کئی ان دیکھے راز پنہاں ہیں۔ جب تک وجودی توانائی کو فطرت کی بے کراں لہروں سے ہم آھنگ نہیں کرلیا جاتا، کائنات کے اسرار تک رسائی پانا ممکن نہیں۔ اس کا من فطرت کی نبض کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ بلاشبہ شاہ عبدالطیف بھٹائی فطرت اور وقت شناس شاعر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں سندھ دھرتی کے لاتعداد رنگ نظر آتے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے