پطرس کی فنی مہارت کی مظہر  شگفتہ مکالمہ نگاری کا ایک نمونہ پیش کیا جاتاہے ۔

        میں کچھ دیر تک آ ہیں بھرتا رہا۔مرزاصاحب نے کچھ توجہ نہ کی آخر میں نے خاموشی کو توڑا اورمرز اصاحب سے مخاطب ہو کربولا:۔

       ”مرزا!ہم میں اور حیوانوں میں کیا فرق ہے؟“

      مرزا صاحب بولے ”بھئی کچھ ہو گا ہی نہ آخر۔“

      میں نے کہا ”میں بتاؤ ں تمھیں؟“

      کہنے لگے ”بولو۔“

      میں نے کہا”کوئی فرق نہیں۔سنتے ہو مرزا؟کوئی فرق نہیں۔ہم میں اور حیوانوں میں۔۔۔۔کم از کم مجھ میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں!ہاں ہاں میں جانتاہوں۔تم مین میخ نکالنے میں بڑے طاق ہو کہہ دو گے حیوان جگالی کرتے ہیں تم نہیں کرتے۔اُن کی دُم ہوتی ہے تمھاری دُم نہیں۔لیکن ان باتوں سے کیا ہوتاہے؟اِن سے تو صرف یہی ثابت ہوتاہے کہ وہ مجھ سے افضل ہیں لیکن ایک بات میں مَیں اور وہ بالکل برابر ہیں۔وہ بھی پیدل چلتے ہیں۔میں بھی پیدل چلتا ہوں۔اس کا تمھارے پاس کیا جواب ہے؟جواب نہیں کچھ ہے تو کہو۔بس چُپ ہو جاؤ۔تم کچھ نہیں کہہ سکتے۔جب سے میں پیداہوا ہوں اُس دِن سے پیدل چل رہا ہوں۔پیدل! تم پیدل کے معنی نہیں جانتے۔پیدل کے معنی ہیں سینہئ زمین پر اس طرح حرکت کرناکہ دونوں پاؤ ں میں سے ایک ضرور زمین پر رہے۔یعنی تمام عمرمیرے حرکت کرنے کا طریقہ یہی رہاہے کہ ایک پاؤں زمین پر رکھتا ہوں۔دوسرا اُٹھاتا ہوں۔دوسرا رکھتاہوں،پہلااُٹھاتاہوں۔ایک آگے ایک پیچھے۔ایک پیچھے ایک آگے۔خدا کی قسم اس طر ح کی زندگی سے دماغ سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔حواس بے کار ہو جاتے ہیں۔تخیل مر جاتا ہے۔آدمی گدھے سے بدتر ہو جاتا ہے۔“

       مرزا صاحب میری اِس تقریر کے دوران میں کچھ اِس بے پروائی سے سگرٹ پیتے رہے کہ دوستوں کی بے وفائی پر رونے کو دِل چاہتاتھا۔میں نے از حد حقارت اور نفرت کے ساتھ منہ ان کی طرف سے پھیر لیا۔ایسامعلوم ہوتا تھاکہ مرزا کو میری باتو ں پر یقین ہی نہیں آتا۔گویامیں اپنی جوتکالیف بیان کر رہا ہوں وہ محض خیالی ہیں۔یعنی میرا پیدل چلنے کے خلاف شکایت کرنا قابلِ توجہ ہی نہیں۔یعنی میں کسی سواری کامستحق ہی نہیں۔میں نے دِل میں کہا”اچھا مرزایوں ہی سہی۔دیکھو تو میں کیا کرتا ہوں۔“

      میں نے اپنے دانت پچی کر لیے اور کرسی کے بازو پر سے جُھک کر مرزا کے قریب پہنچ گیا۔مرزا نے بھی سر میری طرف موڑا۔میں مسکرا دیا لیکن میرے تبسم میں زہر مِلا ہوا تھا۔جب مرزا سننے کے لیے بالکل تیار ہو گیاتو میں نے چبا چبا کر کہا:۔

             ”مرزا میں ایک موٹر کار خریدنے لگاہوں َ“

      یہ کہہ کرمیں بڑے استغنا کے ساتھ دوسری طرف دیکھنے لگا۔

     میں نے کہا’’  سُنا نہیں تم نے۔میں ایک موٹر کارخریدنے لگا ہوں،موٹر کارایک ایسی گاڑی ہے جس کو بعض لوگ موٹر کہتے ہیں۔بعض لوگ کار کہتے ہیں۔لیکن چونکہ تم ذرا کُند ذہن ہو۔اس لیے میں نے دونوں لفظ استعمال کر دئیے ہیں۔تاکہ تمھیں سمجھنے میں کوئی دِقت پیش نہ آ ئے۔“

     مرزا بولے ”ہوں“

    اب کے مرزا نہیں میں بے پروائی سے سگرٹ پینے لگا۔بھویں میں نے اوپر کو چڑھا لیں۔سگرٹ والاہاتھ میں منہ تک اِس انداز میں لاتااور ہٹاتا تھاکہ بڑے بڑے ایکٹر اِس پر رشک کریں۔

    تھوڑی دیر کے بعد مرزا پھر بولے”ہوں“

       میں نے سوچا اثر ہو رہا ہے۔مرزا صاحب پر رعب پڑ رہا ہے۔میں چاہتا تھا۔مرزا کچھ بولے۔تاکہ مجھے معلوم ہو کہاں تک مرعوب ہوا ہے۔لیکن مرزا نے پھر کہا ”ہوں“

      میں نے کہا ”مرزاجہاں تک مجھے معلوم ہے تم نے سکول اورکالج اور گھر پر دو تین زبانیں سیکھی ہیں۔اس کے علاوہ تمھیں کئی ایسے الفاظ بھی آتے ہیں جو کسی سکول اور کالج یاشریف گھرانے میں نہیں بولے جاتے۔پھر بھی اِس وقت تمھار کلام ”ہوں“ سے آ گے نہیں بڑھتا۔تم جلتے ہو۔مرزا اس وقت تمھاری جوذہنی کیفیت ہے۔اس کو عربی زبان میں حسدکہتے ہیں۔

      مرزا صاحب کہنے لگے ”نہیں یہ بات تو نہیں۔میں تو صرف خریدنے کے لفظ پر غور کر رہا تھا۔تم نے کہا میں ایک موٹر کار خریدنے لگا ہوں۔تو میاں صاحب زادے خریدنا ایک ایسا فعل ہے کہ اس کے لیے روپے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔وغیرہ کا بندوبست توبخوبی ہو جائے گالیکن روپے کا بندو بست کیسے کرو گے؟“

   یہ نکتہ مجھے نہ سُوجھا تھا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔میں نے کہا ”میں اپنی کئی قیمتی اشیابیچ سکتا ہوں۔“

    مرزابولے ”کون کون سی مثلاً؟“

     میں نے کہا”ایک تو میں اپنا سگرٹ کیس بیچ ڈالوں گا۔“

      مرزا کہنے لگے ”چلو دس آنے تو یہ ہو گئے۔ باقی ڈھائی تین ہزارکاانتظام بھی اسی طرح ہوجائے تو سب کام ٹھیک ہو جائے گا۔“

اس کے بعدضروری یہی معلوم ہوا کہ گفتگو کاسلسلہ کچھ دیر کے لیے روک دیا جائے۔چنانچہ میں مرزا سے بیزار ہو کر خاموش ہورہا۔یہ بات سمجھ میں نہ آ ئی کہ لوگ روپیہ کہاں سے لاتے ہیں۔بہت سوچا۔آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ لوگ چوری کرتے ہیں۔اس سے ایک گونہ اطمینان ہوا۔

      ہوسِ زر کے سرابوں میں خجل ہونے والے بد قسمت افراد یہ سمجھتے ہیں کہ مادی دور کی لعنتوں کے باعث معاشرتی زندگی سے راحت و شادمانی،عدل و انصاف اور خوش حالی کی تمنا خیال و خواب ہو گئی ہے۔ مراعات یافتہ عناصر نے اپنی مکر کی چالوں سے تمام وسائل پر غاصبانہ قبضہ کر ر کھاہے۔ ساری دنیاکے حالات بدل رہے ہیں مگرمحنت کشوں کے حالات  جوں کے توں ہیں۔ کوئی مسیحا فاقہ کش فقیروں کی قسمت کی لکیروں کو بدل نہیں سکا مگر بے ضمیروں کے سدا وار ے نیارے رہتے ہیں۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ عقابوں کے نشیمن اب زاغوں کے تصرف میں ہیں۔  ادب کا عام قاری بھی جب زندگی کے تضادات دیکھتا ہے تو وہ دل گرفتہ ہو جاتاہے۔آلام ِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والا محروم طبقہ مراعات یافتہ استحصالی طبقے کی عیاشیوں کو دیکھ کر ہروقت حواس باختہ،غرقابِ غم اور نڈھال رہتا ہے۔اقتصادی زبوں حالی کے شکار اور آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے محروم لوگ پطرس کی کتاب ”مضامین پطرس“نکال کر پڑھنے لگتے ہیں کہ شاید انھیں معاشی عدم مساوات کو ختم کرنے  اوراہلِ جور کو نیست و نابود کرنے کے لیے پطرس جیسے درد آ شنا کا تجویز کردہ درج ذیل نسخہ مِل جائے۔

       ”میری طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ میں جب کسی کی موٹر کار کو دیکھوں۔مجھے زمانے کی ناساز گاری کاخیال ضرور ستانے لگتاہے اور میں کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگتا ہوں جس سے دنیا کی تما م دولت سب انسانوں میں برابر برابر تقسیم کی جا سکے۔اگر میں سڑک پر پیدل جا رہا ہوں اور کوئی موٹر اس اد اسے گزر جائے کہ گرد و غبارمیرے پھیپھڑوں،میرے دماغ،میرے معدے اور میری تِلّی تک پہنچ جائے تو اُس دِن میں گھر آ کر عِلمِ کیمیاکی وہ کتاب نکال لیتا ہوں جو میں نے ایف۔اے میں پڑھی تھی۔اور اس غرض سے اس کا مطالعہ کر نے لگتا ہوں کہ شاید بم بنانے کا کوئی نسخہ ہاتھ آ جائے۔“  ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے