خالی صحفہ  پر پڑا ہوا

خاموش قلم

پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا

پیاسا پرندہ

اسمبلی میں بیٹھے ہوئے

حکمران

اپنے منزل سے بکھرا ہوا

مسافر

جس نے خود سفر شروع کیا ہو۔

اور آدھے راستے میں

خود کو ڈھونڈتا رہا

سب ایک ہی داستان سے

وابستہ ہیں۔

مگر داستان کسی اور

سے آشنا ہے۔

اسی آشنائی سے ہم نا آشنا

ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔

ہم یوں بکھرتے رہے

کبھی  عدالتوں میں

تو

کبھی  بھوک کی ہڑتالوں میں۔

کبھی  شال کی سڑکوں پر

تو کبھی  تھر پار کے صحراؤں پر۔۔۔

مگر۔۔۔۔

میں ہمیشہ نا امید ہوتا رہا

یہ سب میرے لئے خواب تھے۔

جن کو میں ہمیشہ ڈھونڈتا رہا۔۔۔۔

ہمیشہ کی طرح۔۔۔!!!!۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے