نہ سنائی دے ہمیں کچھ حسین، یزید کچھ نہ سنائی دے

ہیں سماعتوں پہ وہ قفل جن میں کلید کچھ نہ سنائی دے

 

ہمیں نیک و بد سے غرض نہیں، شر و خیر اپنا مرض نہیں

ہمیں پاک کا نہیں کچھ لحاظ، پلید کچھ نہ سنائی دے

 

تُو بس ایک بات کہے مجھے، میں بس ایک بار سنوں تجھے

جو سنوں بلند ہو اس قدر کہ مزید کچھ نہ سنائی دے

 

کبھی شور میں نہ بلا مجھے، کہیں لوریوں میں سُلا مجھے

کوئی چاشنی سی ہو جنبشوں کی، شدید کچھ نہ سنائی دے

 

یہ وہ دور ہے، وہ نہیں جو ہم نے سنا تھا یہ کوئی اور ہے

یہاں اجنبی سی ہے باز گشت، شنید کچھ نہ سنائی دے

 

نہیں اشک کوئی بھی آنکھ میں، نہ شرر کوئی مری راکھ میں

مرے خون میں نہیں ارتعاش، ورید کچھ نہ سنائی دے

 

میں جو دیکھتا تھا صدا نہ تھی، تری گفت گو میں ندا نہ تھی

ترے نقش کرتے تھے بات، اب تری دید کچھ نہ سنائی دے

 

مری جیب میں کوئی زر نہیں، کسی بات کا مجھے ڈر نہیں

تو جو مانگ لے مجھے اس کا نرخِ خرید کچھ نہ سنائی دے

 

یہ جو اپنے کانوں کا لین ہے یہی وقت کی بڑی دین ہے

ہمیں غم ہی گوش گزار ہیں ہمیں عید کچھ نہ سنائی دے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے