آئینہ سنگ پر کرچھیاں ہر طرف

ضعف جاں اک طرف، تلخیاں ہر طرف

زخم پھر کھل گئے بھیگتی رات میں

یاد کی کھل گئیں کھڑکیاں ہر طرف

آنکھ حیران ہے، حلقہِ خواب میں

پر کٹی رہ گئیں تتلیاں ہر طرف

پھر کوئی عکس ہے دل کی دیوار پر

فرش سے عرش تک سسکیاں ہرطرف

مقتل ِعشق میں روح جب تھی لہو

جل رہی تھیں وہاں کشتیاں ہر طرف

معتبر جان کر ہم گئے تھے جہاں

بے ضمیروں کی تھیں ٹولیاں ہر طرف

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے