محضر شوقِ محبت پڑھا کل رات گئے

ذہنِ بیکار سے سب کشف و کرامات گئے

کسی انگارے سے خس اور کرشمات اس کے

اس کو چھو لینے کی خواہش میں مرے ہاتھ گئے

اور کچھ دیر مجھے اس کا تبسم تھا نصیب

اور کچھ دیر جو ہم باغِ طلسمات گئے

ہر طرف لوگ تھے اور لوگ ہمیں دیکھتے تھے

ہم بھی بد مست ترے ساتھ گئے ساتھ گئے

ہائے وہ جلوہ ء صد رنگِ وصالِ یاراں

اپنی جانب نِگَراں رکھتا مجھے رات گئے

ایک لمحہ بھی اگر شعر میں تصویر نہ ہو

یوں لگے جیسے مرے ہاتھ سے لمحات گئے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے