یہ ”عالم فاضل“ کون تھا؟

 

آئیے ذرا اِس”عالم“کے بارے میں تفصیلات جانیں۔ اِس ”عالم فاضل“ کو ہم تو لینن کے نام سے جانتے ہیں۔ مگر، کتابوں میں اُس کا نام ذرا طویل ہے:”ولادیمیر  ایلیچ  الیانوف  لینن“  (جس کا لفظی مطلب ہے: ولا دیمیر  بیٹا  اِلیا اولیانوف  کا)۔بھئی،یہ توکیمسٹری کے فارمولے جتنا لمبا اور مشکل نام ہے۔ ہے ناں؟۔

ناموں کی دنیا بھر میں دلچسپ قسمیں موجود ہیں۔ صرف روس میں ہی نہیں بلکہ بہت سارے خطوں میں لوگوں کے لمبے لمبے نام ہوتے ہیں۔ مثلاًعربوں میں دیکھے۔ وہاں فلاں ابن فلاں کو لے کر طویل نام ہوتے ہیں۔ سپین میں (اور یوں لاطینی امریکہ میں)ناموں کے ساتھ ماں کا نام بھی شامل کیا جاتا ہے۔

دراصل ہم اس طرح کے بڑے ناموں کے عادی نہیں ہیں۔ہمارے ہاں  بالخصوص مشرقی بلوچوں میں توہم اگر قبیلے کا نام اپنے نام کے ساتھ نہ لکھیں تو عموماً ہمارے نام  ایک، یا زیادہ سے زیادہ دو الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں۔بس۔

بہر حال ہم لینن کے طویل نام پہ بات کررہے تھے۔ اُس نام میں سے آخری حصہ یعنی ”اولیانوف“ اُس  کاخاندانی نام ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ لینن کے والد اور سارے بہن بھائیوں کے نام کے آخر میں یہ لفظ موجود رہے گا۔جی ہاں، لینن کے سارے بہن بھائیوں کے نام کے ساتھ لفظ ”اولیانوف“ موجود ہے۔اس لیے کہ یہ اُس خاندان کا خاندانی نام تھا۔

ایلیچ کا مطلب: بیٹا ایلیا کا۔ یعنی باپ کا نام ایلیا بھی اُس کے نام کے ساتھ نتھی کردہ ہے۔اور اگر باپ کا نام بھی ہٹا دیں تو اُس کا بقیہ اور اصل نام ”ولادیمیر“رہ جاتاہے۔ یعنی لینن کا اصل نام ”ولادی میر“ ہے۔

مگر یہ نام اس نے بہت کم استعمال کیا۔ وہ اس کے برعکس ”لینن“ کے نام سے مشہور ہے۔

نئے قاری کے لیے کنفیوژن کبھی کبھی اِس بات پہ ہوتی ہے کہ بہت ساری کتابوں میں اِس لمبے کا نام کا کبھی ایک حصہ استعمال ہوتا ہے تو کبھی دوسرا۔ہم اپنی اِس تصنیف میں ”لینن“ ہی استعمال کریں گے۔

تو اب سوال یہ ہے کہ لفظ ”لینن“ کہاں سے آیا؟

بات یہ ہے کہ لینن کے زمانے کا روس ایک قہار و جیار بادشاہ کے تحت تھا۔ وہاں کوئی سیاسی پارٹی نہ تھی، کوئی ٹریڈ یونین کام نہیں کرسکتی تھی۔ کوئی پارلیمنٹ موجود نہ تھی، کوئی اخبار نہ تھا۔بادشاہ کا حکم حتمی تصور ہوتا تھا۔ اس نے اپنی حکمرانی جاری وساری رکھنے کے لیے بدترین پابندیاں لگا رکھی تھیں۔

سرکار سست اور بے کار تھی۔ تعلیم اور تعلیمی ادارے بہت کم تھے۔ کسان آبادی غربت میں مبتلا تھی۔ مختلف قوموں کی آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ بیوروکریسی خود سر اور کرپشن میں لت پت تھی۔ روسی آرتھوڈوکس چرچ انتہائی رجعت پسند تھا۔ سیاسی مخالفین کا مقدر سائبیریا ئی وحشتوں میں جلا وطنی تھی۔

اس بادشاہت کا نام رومانوف سلطنت تھا۔ اس کی گرفت بڑی سخت تھی۔ مخالفین کی خفیہ طور پر نگرانی ہوتی تھی۔ جاسوس ہر جگہ سیاسی لوگوں کی بُو سونگھتے رہتے۔ وہ سیاسی خفیہ گروپوں میں اپنے آدمی گھسا دیتے، گروپ میں سازشیں کروادیتے، اُسے توڑ دیتے،جیلوں میں ڈالتے، اور سائبریا بھیجتے۔

لینن کی ساری زندگی اسی خفیہ سیاست میں گزر گئی۔  وہ چونکہ بادشاہت کا خاتمہ چاہتا تھا،اسی لیے بادشاہ اُس کی جان کا دشمن بنا ہوا تھا۔ چنانچہ سرکاری سختی اتنی تھی کہ وہ اصل نام سے نہ لکھ سکتاتھا،اور نہ سیاسی کام کرسکتاتھا۔ چنانچہ وہ نہ صرف اپنی رہائش کی خفیہ جگہیں تبدیل کرتا رہتا تھا، بلکہ اُسے خفیہ اور نقلی نام بھی اپنانے پڑتے تھے۔ لہذااس نے بہت سے خفیہ اور نقلی نام استعمال کیے۔

مثلاً1893میں اُس کی پہلی تحریریں تو بغیر نام تھیں۔مگر اسی سال کے اواخر میں اس نے ”وی یو“ کا نقلی نام استعمال کیا۔ اور پھر ایک سال بعد ”کے ٹولین“ کا نام اپنایا جو اُس نے ”ٹُولا“ نامی شہر سے لیا۔ 1898میں اس نے نقلی نام ”وی آئی اَلیین“ استعمال کیا۔ اگست 1900میں اس نے ”پتروف“ کا نام لکھا۔پھر 1901میں وہ ”فری ای“ ہوگیا۔ پراگ جلاوطنی کے زمانے میں وہ ”ماڈر یسک“ تھا، ”ریٹی میئر“ تھا، ”میئر“ تھا۔۔۔اور 1902میں ”جیکب رِختر“۔

جنوری 1901میں پلیخانوف کو لکھے خط میں اس نے خود کو ”لینن“ کہہ دیا۔اور اُس نے پھر یہی نام جاری رکھا۔ آج دنیا اُسے اسی نام سے جانتی ہے (1)۔یہ نام اس نے سائبیریا کے دریائے ”لینا“ سے لیا۔

مجھے یقین ہے کہ اب آپ کو یہ نام ”لینن“نہ کنفیوز کرے گا اور نہ اجنبی لگے گا۔۔۔

 

لینن کا والد

لینن کے والد کا نام ایلیا  نکولائیووچ  اولیا نوف  تھا یعنی ایلیا۔

ایلیا اِستراخان نامی علاقے کے کسان کا بیٹا تھا۔ وہ روس کا ایک اچھا ایجوکیشن اسٹ تھا،تعلیم محکمہ میں فزکس کا ٹیچر۔ وہ ”مہذب“ روسی محب وطن تھا۔ وہ ایک ماڈرن، یورپین، مغربی اور روشن خیال سماج قائم کرنا چاہتا تھا۔(2)۔

وہ ایک عوامی ٹیچر تھا۔ وہ تعلیم کو تمام برائیوں کی بیخ اکھاڑنے کا ذریعہ گردانتا تھا۔  وہ گریک آرتھوڈوکس تھا، مذہبی سا آدمی۔وہ اچھا پیار کرنے والا خاوند اور باپ تھا۔ اس نے اپنی اولاد کو بھی انقلابی روح کی تربیت دی۔

مگر اُس کی تنخواہ زیادہ نہ تھی۔ اس لیے غریبی تھی۔ اس قدر غریبی کہ یہ خاندان دس سالوں تک سمبرسک میں کرائے کے مکانوں میں رہتا رہا۔ پھر کہیں جاکریہ لوگ اپنا مکان خرید پائے۔

ایک نسل پرست معاشرے میں یہ لوگ  ”اصل“  روسی نسل سے نہ تھے۔ اس لیے انہیں معاشرے میں اصلی روسی جیسی عزت بھی میسر نہ تھی۔

ایلیا زندگی کے آخری حصے میں ایک بڑا افسر یعنی انسپکٹر آف سکولز بھی ہوگیا  تھا۔مگر زندگی مجموعی طور پر تلخ ہی رہی۔سکولوں کے معائنوں پر رہ کر وہ اکثر طویل دوروں پر ہوتا۔ لہذا گھر کا انتظام اُس کی بیوی ماریا ہی سنبھالتی تھی۔

ایلیا جنوری1886 میں 53برس کی عمر میں دماغ کا رگ پھٹنے سے  اُس وقت انتقال کرگیا جب لینن کی عمر سولہ برس تھی۔

اُس کی موت بلاشبہ خاندان کے لیے بڑا صدمہ تھا۔ یہ ایک معاشی تباہی بھی تھی۔خاوند کے مرنے کے بعد بیوہ نے خاوند کا پنشن کم ہونے کی وجہ سے اپنے گھر کا آدھا حصہ کرایہ  پر چڑھا دیا۔

 

لینن کی والدہ

لینن کی ماں کا اثر خاندان پہ زیادہ رہا۔ اس لیے کہ وہ دیر تک زندہ رہی اور اپنے بچوں کی سرپرست رہی۔ اُس کا نام، ماریا،الیگزنڈروونا(پیدائش 1835) تھا۔ یعنی وہ الیگزنڈر نامی ایک ڈاکٹر کی بیٹی تھیں۔ گھر میں تعلیم حاصل کردہ یہ خاتون جرمن، فرنچ، اور انگلش زبانیں جانتی تھی اور بہترین پیانوبجاتی تھی۔ اسے پھولوں سے محبت تھی۔  وہ ایک زبردست کردار اور قوتِ ارادی کی مالک تھی۔وہ سکول ٹیچر اور ایجوکیشن اسٹ تھی۔

اس نے ایلیا سے 1863میں شادی کی۔ عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ شادی محبت کی تھی اور بلاشبہ یہ ایک رفیقانہ شادی تھی۔ سچی دوستی اور باہمی احترام والی شادی۔

ان کے ہاں آٹھ بچے پیدا ہوئے۔ (دو بچے پیدائش ہی کے وقت مرگئے)۔ (3)۔

ان کی سب سے بڑی اولاد آننا تھی جو کہ شادی کے ایک برس بعد یعنی اگست 1864میں پیدا ہوئی۔ اس کے دو سال بعد 1866میں الیگزنڈر نامی بیٹا پیدا ہوا۔ پھر 1970میں ولادی میر، 1871میں اولگا پیدا ہوئی۔ اس کے بعد 1874میں دیمتری نامی بیٹا ہوا اور دیمتری کی پیدائش سے چار سال بعد بیٹی ماریا پیدا ہوئی۔

قدرتی طور پر جو بچے عمر میں ایک دوسرے کے قریب تھے، کھیل کے ساتھی بنے۔ مثلاً آننااور الیگزنڈر۔ اولگا اور دلادی میر۔

ماں نے اپنے بچوں کی تربیت پہ پوری توجہ دی۔ اُس نے انہیں دیانت دار اور محنتی بننے،اور انسانوں سے ہمدردی رکھنے کی تربیت دی۔اس کے سارے چھ کے چھ بچے انقلابی بنے۔وہ بالخصوص بچوں میں اپنی تنظیمی قابلیت انڈیلنے میں کامیاب رہی تھی۔ ایک بار کروپسکایا نے لکھا تھا کہ تنظیم سے متعلق لینن کی قابلیت اُسے ماں سے ورثے میں ملی تھی۔اسے لوگوں کے ساتھ مہربانی اور ہمدردی بھی ماں سے ورثے میں ملی تھی۔اسی سبق کی بدولت ہی تو دعویٰ کیاجا سکتا ہے کہ لینن عام مزدور سے، عام عوام الناس سے ہمیشہ قریب رہا۔

ماریا اپنے بچوں کی انقلابی جدوجہد میں 30برس تک گرمجوش مددگار تھی۔ اس بہت ہی حساس اور ہمدردخاتون کی زندگی اُس وقت برباد ہوگئی جب اُس کے بڑے بیٹے کو بادشاہ کے قتل کی سازش میں پھانسی پر چڑھا یا گیا۔ اس کے علاوہ اس کی بیٹی اولگا اور دوسرے بچوں کی بار بار گرفتاریوں نے بھی اس پہ بہت مصیبتیں برپا کردیں۔ یہ برباد کر ڈالنے والی تکلیفیں اس نے اپنے جذبے اور ایمان کی قوت،اور اپنے کردار کی مضبوطی سے سہیں۔ اس نے اپنے گھرانے پہ پئے در پئے ٹوٹتی بدقسمتیوں کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا۔

ماریا الیگزنڈرونا1916.میں فوت ہوئی اور لینن گراڈ میں دفن ہوئی(4)۔

 

لینن کی بڑی بہن

لینن کی بڑی بہن کا نام آننا تھا(پیدائش 1864)۔ وہ بھی اپنے دوسرے بھائی بہنوں کی طرح پیشہ ور انقلابی اور کمیونسٹ پارٹی کی سرکردہ راہنما تھی۔وہ1886 میں انقلابی تحریک میں شامل ہوئی۔بادشاہ کو قتل کرنے کی سازش کے الزام میں وہ اپنے بھائی الیگزنڈر کے ساتھ گرفتار ہوئی تھی۔ اسی کیس میں بھائی پھانسی چڑھا تھا اور آننا کو پانچ برس کی اندرونی جلاوطنی کی سزا ہوئی تھی۔ اسی قید میں وہ اپنے ابھی تک زندہ قیدی بھائی کو خط لکھتی ہے:

”روئے زمین پہ تم سے بہتر یا تم جیسا کوئی اور نہیں۔ یہ صرف میں ایک بہن کی حیثیت سے نہیں کہہ رہی۔جو کوئی بھی تمہیں جانتا ہو یہی کہے گا، میرے محبوب ننھے بیٹے“۔(5)۔

چونکہ وہ سب سے بڑی تھی اس لیے وہ چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھتی تھی۔ وہ لینن کے مستقبل کے فیصلے پہ بہت دلچسپی لیتی رہی۔ اور اسے یونیورسٹی بھیجنے پر رضا مند ہوئی۔ 1920کی دہائی تک وہ خود اپنی فیملی میں ”گرینڈ مدر“بن چکی تھی مگر اس کے باوجود وہ اپنے بھائی دیمتری کے بچوں کا خیال رکھتی تھی۔

آنناؔ، پارٹی اخبار اسکرا، اور پارٹی کی دیگر غیر قانونی مطبوعات سے وابستہ رہی۔ وہ کئی بار گرفتار ہوئی اور کئی بار جلا وطن۔ وہ لینن کی کئی یادداشتوں کی مصنفہ بھی تھی۔اس نے بچوں کے ادب پہ بہت کام کیا۔ چٹان کی طرح مضبوط یہ انقلابی، یہ معمر جنگباز لیڈر 19اکتوبر 1935میں انتقال کر گئی۔

اس کی راکھ جلوس کی صورت میں لینن گراڈ دفنائی گئی۔ کہتے ہیں کہ وہاں ایک لاکھ لوگ اسے خراج تحسین پیش کرنے موجود تھے۔ وہ اپنی وصیت کے مطابق وہیں دفن کی گئی جہاں اولگا، اس کی ماں اور اس کا خاوند دفن تھے۔(6)۔

 

 

حوالہ جات

۔1۔ وولکوگونوف۔ لینن، لائف اینڈلی گے سی۔ 1995۔ ہار پر کو لنز۔ صفحہ 2۔

۔2  ۔ رابرٹ سروس۔ لینن، سوانح عمری۔ پین بکس۔2000۔ صفحہ30

۔3۔کائی ٹُورین۔ فارگاٹن لائیوز۔ 2007۔ پالگریو، میکملن۔ نیویارک۔صفحہ 10۔

۔4۔ ہارٹ۔ م۔ ہ۔دی ہنڈرڈ 1978-صفحہ 110

۔5۔کائی ٹُورین۔فارگاٹن لائیوز۔صفحہ 12

۔6۔کائی ٹُورین۔فارگاٹن لائیوز۔صفحہ 154

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے