گذشتہ چند برسوں میں ہمارے اِرد گرد جتنی بھی سیاسی، سماجی، ادبی، صحافتی، تعلیمی، تجارتی ودیگر قسم کے اتحاد وتنظیمیں جنم لیتی رہی ہیں۔ خاص طو ر پر ترقی پسند کہنے اور کہلانے والے،ان کی جڑت، مقبولیت اور پذیرائی کو جلد ہی گرہن لگ جاتی ہے۔ اندرونی اختلافات، اعتراضات اور ایک دوسرے پر اعتراضات کے بعد ان کی طاقت اور قوت بکھرنے لگتی ہے۔ بچھڑنے اور الگ ہونے والے دوست خاموش بیٹھنے کی بجائے اسی نام یا اس سے ملتے جلتے نام سے ایک نئی تنظیم کا اعلان کر بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ ان کے منشور و مقاصد ایک ہوتے ہیں۔ سب کو اپنے ملک،علاقے اور عوام کا درد، ان کی مشکلات و مسائل دامن گیر ہوتا ہے۔ علیحدگی کا یہ تماشہ بیک وقت آپ کو نوجوانوں اور بزرگوں میں نظر آتا ہے۔ حالانکہ یہ اپنے اپنے پلیٹ فارم پر اپنے اپنے منشور وپروگرام سے روگردانی نہ کرنے کی قسم کھا چکے ہوتے ہیں۔ اس کی اہم وجوہات شخصی ٹکراؤ، خود غرضی، عدم برداشت اور سب سے بڑھ کر علم کی کمی بتائی جاتی ہے۔ ایک اور اہم وجہ گھُس بیٹھیوں کا شامل ہونا بھی بتایا جاتا ہے۔ چلو ہم مان لیتے ہیں کہ یہی وجوہات ہیں، کیا جب کوئی بھی نئی جماعت یا تنظیم بنتی ہے۔ ان وجوہات کا علم رکھنے کے باوجود انہیں ختم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی۔ اگر ان میں سے بعض باتیں معمولی ہیں تو دوبارہ اُنہی بنیادوں پر ان کی رائیں الگ کیوں ہوجاتی ہیں۔ اگر یہ اخلاقی ونفسیاتی بدنظمیاں ہیں تو ان کاحل بھی تو ہوگا۔ اور خاص طو رپر ہر تنظیم اور جماعت کے رہنماؤں کو اس بات کا علم ہے کہ تنظیموں میں نظم وضبط کا ہونا ناگزیر ہے۔ وہ اس تنظیم وضبط کو برقرار رکھنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوتے۔ برسوں ایک ساتھ رہنے، نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے کے بعد وہ ایک دوسرے سے متنفر کیوں ہو جاتی ہیں۔  ہمارے سامنے ماضی کے بڑے جوشیلے رہنما کسمپرسی میں زندگی گزارنے پر مجبور کیوں ہوجاتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ کسی بھی زمانے کے حکمران اپنے مقابل مخالفین کو برداشت نہیں کرتے۔وہ انہیں پارہ پارہ کرنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہیں۔ لیکن بعض تحریکوں میں شامل رہنمااکثر حکمرانوں کے عزائم خاک میں ملانے میں کامیاب بھی تو ہوئے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ انہوں نے حکمرانوں کی صلاحیت وو سائل اور چالبازیوں کے مطابق پروگرام تشکیل دیے ہیں۔ جہاں انہیں ٹکراؤ کی ضرورت ہوئی ہے انہوں نے ٹکراؤ کو ترجیح دی ہے۔اور جہاں انہیں حکمرانوں کے مقابلے میں بغیر کسی ٹکراؤ کے بہتر عوامی پروگراموں کی ضرورت محسوس ہوئی ہے انہوں نے وہی راہ اپنائی ہے۔ اب تک کی کامیاب تحریکوں میں فکرو عمل نظم وضبط کو زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ تو اس سے فرار کیوں۔ بہترین فکر وعمل ہی انسانوں میں بیداری پیدا کرنے کا باعث بنتے آرہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے موجودہ حالات میں فکر و عمل کا عمل دخل کم ہے۔ جس کی وجہ سے ملکوں کی طرح سیاسی وسماجی سدھار کے دعویدار شدید اختلافات کا شکار ہیں۔ ملک اور صوبوں میں اتنشار کی بنیادی وجہ یہی ہوسکتی ہے۔ حالانکہ مخلوط حکومتوں پر مشتمل حکمران بھی اس مسئلہ سے دو چار ہیں۔ اس لحاظ سے تو ان کی حکمرانی کبھی بھی مستحکم نظر نہیں آئی۔ اس کے باوجود وہ پرفکر، سچائی کے علمبردار تنظیموں وجماعتوں کے ہوتے ہوئے لڑاؤ اور حکومت کرو کی اپنی پالیسی میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں موجودہ سیاسی پارٹیوں تنظیموں اور جماعتوں کو خود سے مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ہی فکر کے دعویداروں کو اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ بیرونی و اندرونی سیاسی مداخلت کا مقابلہ کرنے کیلئے ناگزیر حکمت عملی اپنانے پر توجہ مرکوز کرنے مستحکم سیاسی و سائنسی علوم اور آکٹھ کے ساتھ آگے بڑھنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ چھوٹے معاملات میں الجھنے کی بجائے بڑے اور اہم ایشوز پر بحث و مباحث کو ترجیح دینی چاہیے۔ کل کے مقابلے میں آج کسی بھی سچی اور پُر فکر بات کے پھیلانے دلوں میں روشنی منور کرنے میں ماضی جیسی کوئی رکاوٹ نہیں۔ اس بات کا ادراک کرتے ہوئے شخصی وعلاقائی ٹکراؤ کی بیخ کنی کی جائے۔ خود سے ناانصافی ترک کر کے حکمرانوں سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد کو فروغ دیے بغیر بھر پور زندگی کا حصول ناممکن ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

محض مثبت روایات کے تذکروں سے اجتناب کرتے ہوئے نئی مثبت روایات کی داغ بیل ڈالنے کی ضرورت کا احساس پیدا ہونا لازمی ہے۔ منفی عناصر کے زور اور قوت کا مقابلہ تب ہی کیا جاسکتا ہے جب اُنہی کی طرح اپنے مثبت عمل کے لیے ان جیسی زور اور قوت کے لیے یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ ہماری تنظیموں اور حکمرانوں کی تانگہ پارٹیوں میں بھلا کیا فرق ہے۔ لیکن وہ پھر بھی ظلم، ناانصافی اور لوٹ مار پر متحد ہیں۔ ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ حالانکہ ہم سب ان کے خلاف ہیں لیکن کسی ایک نکتہ پر مِل بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ جو ایک ساتھ دائمی نہیں بیٹھ سکتے ان پر بھلا کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ اجتماعات میں تقریروں کے ذریعے بازی لے جانے، اپنے اپنے جھنڈوں اور بینر نمایاں کرنے، اپنے اپنے پریس ریلیز میں زیادہ قوت کا مظاہرہ ہی واحد مقصد ہوتا ہے۔ اکثر تنظیمیں محض اخباری بیانات تک محدود ہوتی ہیں۔ چند ایک تو عہدوں اور کارکنوں میں خاندان برادری کی حد تک محدود ہیں۔ کچھ اپنے مریدوں، مزارعوں، مزدروں، محلہ داروں کے سہارے چل رہے۔ جہاں قبائلی نظام ہے۔ وہاں ہر شعبہ میں قبائلیت حاوی ہے۔ آپ کو اس ملک میں اساتذہ کی بھی بے شمار تنظیمیں ملیں گی۔ ملازمین اور افیسران کی تنظیمیں بھی۔ وکلاء اور ڈاکٹرز کی تنظیمیں اپنے مخالف شعبوں سے تعلق رکھنے والے کی بدمعاشی روکنے یا اپنی کمزوریاں چھپانے کے لیے وجود پذیر ہیں۔ سرکاری شعبوں میں ٹرانسفرز روکنے، سماجی شعبوں میں تھانوں تک رسائی، ادبی شعبوں میں نام ونمود تجارتی شعبوں میں سمگلنگ اور دیگر بعض شعبوں میں مقتدرہ سے تعلقات، پرمٹ کے حصول، فنڈز کے اجراد کے لیے زیادہ زور لگایا جاتا ہے۔ بلیک ملینگ کے لیے بنائی گئی جماعتیں اور تنظیمیں موجود ہ نظام میں کامیاب نظر آرہی ہیں۔ سنجیدہ تنظیمیں شخصی ٹکراؤ کا شکار ہیں۔ نظریاتی وابستگی ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ باقی کار آمد انسان تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ کسی بھی قوم کو سنبھلنے اور سنبھالنے کے لیے جس لیڈر شپ اور بے غرض پیروکاروں کی ضرورت ہے۔ انصاف پر مبنی ایک نظام کی ضرورت ہے۔اس کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ہاں اس سے انکار نہیں کہ بعض انفرادی طور پر کام کرنے والے اشخاص اس وقت بھی لاکھوں پر بھاری نظر آتے ہیں۔ وہ دیے سے دیا جلانے کے کام پر مامور ہیں۔ موجودہ نظام سے مایوس و محروم انسان اگر ان کا ہاتھ تھام لیں تو عوامی شعور بیدار کرنے میں نہ صرف آسانی ہوگی بلکہ ان کی جدوجہد کے مثبت اور انقلابی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ایک ہی مقصد کے لیے کام کرنے والے ایک دوسرے خلاف شکوک وشبہات ترک کریں۔ اختلافات دور کرنے کے لیے صبرو تحمل کا مظاہرہ کریں۔ پہلی فرصت میں علاقائی سطح پر اپنے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے مل کر سفر کا آغاز کریں۔ بھائی چارہ اور یکجہتی کو فروغ دینے کا عمل گھر سے شروع کریں۔ اتحاد کی فضاء قائم کرنے کے لیے عاجزی و درویشی کو اپنا وطیرہ بنائیں۔

ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی بجائے فرسودہ نظاموں کا مقابلہ کریں۔ پہلے گفت و شنید کے روایتی طریقہ کار کے مطابق قربت پیدا کریں۔ سماجی واخلاقی علوم کو انسانیت اور ترقی کی بنیاد سمجھ کر آگے بڑھیں۔ تب کہیں جاکر ہم کسی سماجی انقلاب کے قابل ہوسکیں گے۔ وگرنہ تقسیم در تقسیم کا یہ سلسلہ شیطان کی آنت کی طرح نسلوں میں پھیلتا جائے گا۔ قدیم غلامی سے بھی بدتر دن گزار نا ہمار امقدر ٹہرے گا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے