اُسے محبت ہوئی تو یوں محسوس ہواکہ یہی وہ کیفیت تھی جس کی تلاش میں وہ مدتوں مارا مارا پھرتا رہا۔ پھر ایک شام وہ لڑکی جو اُس کی سچی محبت تھی اُسے یہ کہہ کر کسی اور کی محبت میں گرفتار ہوگئی کہ وہ ایک بالکل بکواس نوجوان ہے۔

آدمی کی بکواسیت کا تعلق اُس کی معیشت سے ہوتا ہے۔یہ بات بالکل عجیب تھی لیکن وہ اپنی خالی جیب کو کیسے بھر سکتاتھا؟۔زندہ رہنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے اور کام ملنے کے لیے سفارش چاہیے تھی جو اُس کے پاس نہیں تھی۔کوئی بھی ذریعہ نہیں تھا سوائے خواب دیکھنے کے۔ سو وہ خواب دیکھتا رہا۔اُسے خواب دیکھنے کا بہت شوق تھا۔وہ سوچتا کہ یہ کیسا انوکھا کام ہے کہ آدمی جب سوتا ہے تو کسی اور جہان میں چلاجاتا ہے۔پھر ایک شب اُس نے تین خواب دیکھے۔

تیسرے خواب میں اُس نے دیکھا کہ چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیااور ہر طرف مکمل اندھیرا چھا گیا تھا۔ دوسراخواب زمین پر ایک ایسے بھوکے آدمی کا تھا جو اپنے پیٹ سے انتڑیاں نکال کر نچوڑ رہا تھا۔۔۔وہ جاگا تو اُس نے دیکھا کہ اُس نے اپنا پیٹ پکڑرکھا ہے۔۔

پہلے خواب میں اُس کی سچی محبت اُس کے جیب کی تلاشی لے رہی تھی لیکن اُسے کچھ نہ ملا تو وہ اُس کے منہ پر تھوک کر چلی گئی۔ وہ جاگاتو اُسے اپنا چہرہ گیلا محسوس ہوا۔۔۔صرف خوابوں کے سہارے تو عُمریں نہیں کاٹی جاسکتیں۔سانس کی آری چلتی ہے تو سارے خوابوں کوچِیرتی چلی جاتی ہے۔

کب تک ناکام محبت کویاد کرکے آنسو بہائے جاسکتے تھے جب کہ آدمی ایک ویٹر ہو؟۔ غریب آدمی کے پاس عموماً بہت سی باتوں کے لیے وقت کم ہوتا ہے سو وہ فوراًاپنے کام کی طرف متوجہ ہوا۔

وقت پر لگاکراُڑتا چلا گیا،اُس کی شادی ہوگئی ایک بچہ ہوگیا لیکن وہ ویٹر کا ویٹر رہا۔

دال دال دال کب تک آدمی دال کھاتا رہے جب کہ لوگ میکڈونلڈ سے ایک ہزار روپے کا برگر خریدتے،آدھا کھاکر باقی چھوڑ جاتے۔

ایک ویٹر کو کبھی سچی محبت نہیں مل سکتی۔ جس آدمی کو مکمل کھانا نہ مل سکے اُسے مکمل محبت کس طرح مل سکتی ہے؟

”منہ ہاتھ دھو کے آجاؤ دال بن چکی ہے۔“اُس کی بیوی نے کہا

پہلالقمہ۔۔۔

”وہ سنیے دکاندار کہہ رہا تھا دوماہ سے پیسے نہیں ملے کل سے سامان نہیں ملے گا“ بیوی نے اُسے بتایا

”یعنی اب دال بھی نہیں“اُس نے دل میں سوچا

دوسرا لقمہ۔۔۔

”وہ بجلی کا بل دوہزارآیا ہے۔“ بیوی نے کہا

 

”بچے کے پیمپر کاکیا کریں؟“

تیسرا لقمہ۔۔۔

”مالکِ مکان آیا تھا کہہ رہا تھا اِس ماہ کرایہ ادا نہ کیا تو سامان باہر پھینک دوں گا، تو کیا اب ہم فٹ پاتھ پر رہیں گے؟“ بیوی نے پوچھا

”مجھے بھوک نہیں، میں سونے جارہا ہوں“اُس نے کہااوراُٹھ کھڑا ہوا۔

”وہ میرے کسی سوال کا جواب تو دیں“بیوی نے پیچھے سے آواز دی۔

”کل تنخواہ مِل جائے گی۔۔۔“اُس نے بتایا

نیند آچکی تھی اور اُسے خواب میں کوئی آواز دے رہا تھا۔

”یہاں سے آگے جنگل ہے تمہیں یہیں سے لوٹنا ہوگا اگر تم آگے گئے تو جنگلی بھیڑئیے تمہیں چیر پھاڑ کھائیں گے“

”لو ٹ آؤ“

”جنگل یہاں سے کتنا دور ہے؟“اُس نے پوچھا

”ایک قدم کے فاصلے پر جنگل ہے“

”تو ابھی ہم کہاں ہیں؟“

”جنگل میں۔۔۔“

”پھر ایک قدم کا فاصلہ؟“

”وہ فاصلہ صرف تمہارے ذہن میں ہے۔“

وہ ڈرکر جاگ گیا۔

”کہاں جاؤں؟ آخر کہاں؟“اُس نے جاگتے ساتھ ہی سوچا

آج تو آپ کی آنکھ جلدکُھل گئی؟بیوی نے اُسے جاگے دیکھا تو پوچھا

”بس آج جلدی کام پر جانا ہے۔“اُس نے کہا لیکن اُسے سمجھ نہ آئی کہ اتنی جلدی صبح کیسے ہوگئی ہے،ایک خواب میں رات کٹ گئی اُسے محسوس ہوا کہ گذشتہ زندگی بھی ایک ہی خواب تھی۔

”آج تنخواہ مل جائے گی نا؟“بیوی نے پوچھا

”ہاں شاید۔۔۔“اُس نے کہا

وہ گھر سے صبح صبح نکل پڑا۔۔۔سڑکوں پر ٹریفک جام تھی، جگہ جگہ کنٹینرز رکھے ہوئے تھے۔

”بھائی یہ گاڑیاں چل کیوں نہیں رہیں؟“ اُس نے ایک شخص سے پوچھا

 

”لگتا ہے خبریں نہیں سنتے“ اُس آدمی نے کہا

”کیوں کوئی خاص خبر ہے کیا؟“

”اپوزیشن حکومت گرانے آرہی ہے“

”تو یہاں حکومت کھڑی ہوئی ہے؟“اُس نے کہا

”بس ہڑتال ہے آج“آدمی نے جواب دیا

”کتنے روز؟“اُس نے پوچھا

”معلوم نہیں،ابھی کچھ معلوم نہیں“آدمی نے کہا اور دوسری جانب دیکھنے لگا

تنخواہ تنخواہ تنخواہ؟؟؟؟؟اُس کے دماغ میں ایک ہی لفظ گونج رہا تھا۔

”کھولو سڑکیں کھولو، گاڑیاں چلاؤ۔۔۔“وہ چلایا

اِس آدمی کو کیا ہوگیا ہے۔۔۔سڑک کنارے کھڑے لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا

وہ سڑک پردوڑنے لگا۔

”سڑک کھولو“

وہ کنٹینر پرلاتیں برسانے لگا۔

پولیس والے کی نظر پڑگئی تووہ دوڑتا ہواآیا اور اُس پر لاٹھی چارج شروع کردیا۔

”اپوزیشن کی حمایت کرتا ہے سالا،کرتا ہوں میں تمہارا بندوبست“اُسے لاٹھیاں پڑتی رہیں،پھر پولیس والا اُسے گھسیٹتے ہوئے لے کر گیا اور پولیس وین میں ڈال دیا۔

”تنخواہ۔۔تنخواہ۔۔۔تنخواہ۔۔۔“

”دال۔۔۔دال۔۔دال۔۔۔“

”بِل۔۔بلِ۔۔بلِ۔۔۔“

جیل میں وہ جاگتا رہا پھررات کے تیسرے پہر اُس کی آنکھ لگ گئی اُس نے خوا ب میں دیکھا کہ کسی کا سامان باہر گلی میں پڑاہے اورایک عورت صندوق کے اوپر بچہ اُٹھائے رو رہی ہے۔پیچھے دیوار پر لکھا ہے۔

”بچہ برائے فروخت“

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے