جانے کس طرف اب یار لوگ رہتے ہیں

سمندروں کے کہیں پار لوگ رہتے ہیں

یہ اتنا شور یہاں کا تو ہو نہیں سکتا

وگرنہ گھر میں تو دو چار لوگ رہتے ہیں

سمندروں سے بھی شفاف آسماں سے عمیق

یہاں پہ لوگ بہت وضعدار رہتے ہیں

ہوا اڑا کے مجھے لے بھی چل اسی جانب

اُدھر جہاں مرے دلدار لوگ رہتے ہیں

یہ دل کی بستی تھی کوئی جلانے آیا تھا

میں چیخ اٹھی،خبردار لوگ رہتے ہیں

عجیب دنیا ہے میری سمجھ سے بالاتر

ہر ایک سمت ہی دشوار لوگ رہتے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے