فیض احمد فیض پاکستان کے جدید شاعروں میں سے صف اول میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری سے محکوم و مظلوم طبقات کے حقوق کی جنگ لڑی۔ مرتے دم تک اپنے آدرشوں پر قائم رہے۔

محنت کشوں، دہکانوں، مزدوروں، کسانوں اور پسے ہوئے طبقے کے عظیم شاعر فیض احمد فیض 13 فروری 1911ء کو پاکستان کے شہر سیال کوٹ میں پیدا ہوئے۔آپ کے والدِ محترم سلطان محمود خان ایک قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ ادب دوست انسان بھی تھے۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ فیض صاحب نے بہت ہی چھوٹی عمر میں مشاعروں کی  نشستوں میں جانا شروع کیا۔1921ء میں فیض صاحب سکاچ مشن سکول میں داخل ہوئے۔ جہاں پر آپ نے دسویں تک تعلیم حاصل کی، اس کے بعد مرے کالج (سیالکوٹ)  میں داخل ہوئے، جہاں سے فیض صاحب نے انٹر کیا۔ بی اے گورمنٹ کالیج لاہور سے کیا اور وہیں سے ہی انگریز ادب میں ایم اے کیا۔ اور آگے چلکر  اورینٹل کالج سے ایم اے عربی کیا۔1935ء میں امرتسر کالیج میں انگریزی ادبیات کے استاد مقرر ہوئے۔ یہ اس وقت برِ صغیر میں آزاد ی کے نعروں اور انگریز کے خلاف انقلابی بغاوت کا دور تھا۔ امرتسر میں ترقی پسند تحریک اپنے جوہر میں موجود تھی۔

۔1936ء میں جب ترقی پسندوں نے Progressive کی بنیاد رکھی، تو فیض احمد فیض بھی اس میں شامل ہوگئے۔ فیض صاحب نے عوامی جدوجہد کی پاداش میں جیل کی سختیاں برداشت کیں۔ لیکن اپنے افکار پر ڈٹے رہے اور عوام کے دکھوں پر لکھتے رہے۔

فیض احمد فیض وہ شاعر ہیں، جن کو اپنی زندگی میں ہی بہت شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی، ترقی پسدفکر اور تحریک کی بنیاد میں ان کی شاعری صف اول کا کردار ادا کرتی رہے گی۔انہوں نے مظلوموں، محکوموں، کسانوں اور محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھایا۔ فیض صاحب کانظریہ عام انسانوں،ان کے مسائل کی بات کرتا ہے،اپنے انقلابی، ترقی پسند اورمظلوم دوست نظریات کی وجہ سے وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ وہ ہر آزمائش کو برداشت کرتے ہوئے اپنے افکار پر قائم و دائم رہے۔

فیض صاحب نے اپنی زندگی کا وقت صرف شاعری کو نہیں دیا، بلکہ وہ محنت کشوں کے لیے لڑتے رہے، فیض صاحب کی زندگی کا ایک اہم پہلومزدور یونین اورمحنت کشوں کی تحریک میں سرگرم رہنا ہے۔ وہ نہ صرف ٹریڈ یونینز کو منظم کرنے کے لئے سرگرم رہے بلکہ محنت کشوں کی نظریاتی تربیت بھی کرتے رہے، تاکہ انقلابی عمل کی نظریاتی بنیادیں مضبوط کی جاسکیں۔ فیض صاحب نے صحافت میں قدم رکھا اور پاکستان ٹائم،امروز،لیل ونہار جیسے اخبارات و جرائد میں کام کرتے رہے۔صحافت میں بھی پسے ہوئے طبقات،  مزدوروں اور عالمی امن کی بات کی۔ ان کے انقلابی افکار صرف برِ صغیر تک محدود نہیں تھے بلکہ انہوں نے دنیا میں چلنے والی اکثر انقلابی اور عوامی تحریکوں کو اپنے قلم کاموضوع بنایا۔ افریقہ، ایران، فلسطین میں چلنے والی جدوجہد کے حوالے سے کہے جانے والے شعروں میں فیض صاحب کے کلام کو ہمیشہ زندہ رہنے والا دیکھا جا سکتا ہے۔ فیض ہر دل عزیز شاعر تھے، ان کی مقبولیت دور دورتک پھیل چکی ہے۔ خاص طور سے فیض صاحب کے خلاف عوام دشمن حلقے پریشانی کا شکار رہتے تھے،جو ان کے کلام اور نظریات کو مسخ کرنے میں شامل رہے، جو مابعدالطبیعاتی رحجانات سے منسلک تھے، وہ فیض صاحب کے نظریات و شاعری کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے، فیض کے کلام کی افادیت یہ ہے کہ آج نئی نسل بھی ان کے فکر و فلسفے سے روشناس ہو رہی ہے۔ فیض صاحب نے اپنے کلام میں اس سماج کی محرومی، بیگانگی اور استحصال کو انتہائی مضبوط اور واضح انداز میں نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ طبقاتی نظام کے خلاف انقلابی لڑائی کی ضرورت پر زور بھی دیا ہے۔

علم، ادب  اور تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ فیض احمد فیض ان شعرا میں سے تھے، جن کا کلام  ان کی زندگی میں عام لوگوں کی پکار بن گیا، ان کے شعر کے بغیر تمام محفلیں ادھوری ہو جاتی تھی، ہمارے سماج میں کسان، مزدور، پسے ہوئے طبقات اور خواتین جب جبر کی چکی میں پس رہی ہوں ایسے حالات میں فیض صاحب کے فکری نظریات کو باربار یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں بہت ہی مشکل دور میں عام انسانوں کے حقوق کی جنگ لڑی، بے لاگ سچ بولتے گئے اپنی شاعری کے ذریعے ایک نئے سماج کی بنیاد ڈالنے کی جو روایت ڈالی اس سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ فیض صاحب آج بھی نئی نسل کے بہت ہی مقبول شاعر مانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری ہمیشہ عام طبقات کی راہنمائی کرتی رہے گی۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے