لٹریچر فکلٹی

 

۔6 دسمبر 2019 بروز جمعہ’ سہ پہر 3:30 بجے سنگت لٹریچر فیکلٹی کی میٹنگ مری لیب میں ہوئی. اجلاس کی صدارت ڈین فیکلٹیز ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کی. لٹریچر فیکلٹی کے چیئرپرسن وحید زہیر, ڈاکٹر منیر رئیسانی اور نجیب سائر نے شرکت کی.

 

آغاز میں گزشتہ کانگریس اور پوہ زانت کے انعقاد پر لٹریچر فیکلٹی کی کارکردگی پہ روشنی ڈالی گئی. صدر مجلس نے فیکلٹی کی کارکردگی کو سراہا.۔

اس کے بعد مختلف موضوعات کو زیر بحث لایا گیا اور فیصلے ہوئے.۔

۔1۔ یہ فیصلہ ہوا کہ نئے موضوعات پہ لکھا جائے. اس حوالے سے لکھاریوں کو ترغیب دی جائے کہ نئے موضوعات یا جن پہ کم لکھا گیا ہے کا انتخاب کریں۔

۔2۔ ہر پوہ زانت میں دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی تحریر ادب کے حوالے سے ہو خواہ وہ نثر ہو یا شاعری.

۔3۔ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ لٹریچر پالیسی کی جانب پہلا قدم اٹھایا جائے گا اور ایک پالیسی ترتیب دی جائے گی.

۔4۔ ہر پوہ زانت کے بعد مختصر وقت کے لیے لٹریچر فیکلٹی کی میٹنگ ہوا کرے گی. یہ میٹنگز باقی فیکلٹیز بھی کرسکتی ہیں.

اجلاس کے آخر میں اثیر عبدالقادر شاہوانی کے ایصال ثواب کے لیے دعا کی گئی

 

میڈیا فیکلٹی

 

شاہ محمد مری کی چیئر پرسنی میں میڈیا فیکلٹی کی دو میٹنگیں ہوئیں۔ ایک بارہ ستمبر کو اور دوسرا 14دسمبر کو۔ بیرم غوری، وحید زہیر اور نور خان محمد حسنی موجود تھے۔ بہت بڑی اکیڈمک بحث کے بعد قرار پایا کہ سنگت اکیڈمی کی یہ فیکلٹی حکومت اور پرائیویٹ دونوں میڈیا کے برعکس عوام دوستی، محنت کی عظمت اور منصفانہ سماج کے قیام کے لیے پبلک اوپی نین بنانے کا ادارہ ہے۔ جبکہ ثانی الذکر عوام کے ذہنوں میں کپٹلزم کے حق میں مواد انڈیلنے کا کام کرتے ہیں۔

فیصلہ ہوا کہ ادارہ چار ذریعوں سے اپنا کام کرے گا۔ پہلا کام تو سنگت پوہ زانت اور سنڈے پارٹی کے اجتماعات میں بورژوا میڈیا کی طرف سے کرنٹ معاملے سے عوام کو گمراہ کرنے کی حرکتوں کو بے نقاب کیا جائے گا۔ (2) سنڈے پارٹی نامی وٹس ایپ گروپ میں ملکی و بین الاقوامی واقعات پہ عوامی موقف دیا جاتا رہے گا۔ (3) میڈیا فیکلٹی کے دوست اپنے اپنے فیس بک میں سنگت اکیڈمی کے سارے ممبروں کو شامل کریں گے۔ (4) ماہنامہ سنگت میں تحریریں لکھیں گے۔

کارل مارکس پر،والکوف کی لکھی کتاب پڑھنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ پرولتاری صحافت کے بارے میں مکمل جانکاری ہو اور بورژوا میڈیا کی چالاکیوں کو سمجھا جائے۔

میٹنگ کی نظر میں اس کی ماہوار میٹنگیں ممکن ہیں۔ لہذا فیکلٹی پر ماہ ملاکرے گی۔

آلٹرنیٹ پیپلز میڈیا پالیسی پر کام شروع کیا جائے گا۔ کوشش ہوگی کہ جرنلزم کے ورکرز میں سے ایک ممبر فیکلٹی میں آجائے۔

 

پوہ زانت فیکلٹی

سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ علمی و ادبی نشست پوہ و زانت کا انعقاد اتوار24نومبر2019ء ہوا۔اجلاس کی صدارت نو منتخب سیکریٹری جنرل پروفیسر جاوید اختر نے کی۔اعزازی مہمان ڈپٹی سیکریٹری ڈاکٹر عطااللہ بزنجو تھے۔ نظامت کے فرائض چیئرپرسن پوہ زانت نجیب سائر نے ادا کیے۔ اس نشست کے پہلے حصے میں ایک افسانہ اور نظم تنقید کے لیے پیش کیے گئے جب کہ دوسرے حصے میں ایک مضمون پیش ہوا۔

معروف افسانہ نگار وسیم شاہد نے اپنا افسانہ ”خواب بیچتا ہوں“ برائے تنقید پڑھ کر سنایا۔ وسیم شاہد بلوچستان کے ابھرتے ہوئے فکشن نویس ہیں۔ ان کا ایک ناول اور افسانوں کا ایک مجموعہ شائع ہو کر قارئین سے داد وصول کر چکے ہیں۔ جب کہ دوسرا ناول زیر اشاعت ہے۔ اس نے افسانہ پڑھا۔جس کے بعد سامعین نے افسانے پہ رائے دہی کی۔ پروفیسر بیرم غوری نے افسانے پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’خواب‘ ادب کا بہت بڑا استعارہ ہے، افسانہ نگار نے جتنا بڑا استعارہ استعمال کیا ہے، اسے ادبی سطح پر نبھا نہیں پائے۔ اس میں تفصیلات اور جزئیات تو بہت ہیں، مگر افسانویت معدوم ہے۔ ادب احساس کی سطح پر اثرانداز ہوتا ہے، جس سے یہ افسانہ محروم ہے، اس لیے اسے ایک بار پھر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ادب میں محض خیال اہم نہیں ہوتا، اس کی پیشکش اصل معاملہ ہے۔ ادب میں ہم یہی دیکھتے ہیں کہ جو خیال لکھاری پیش کرنا چاہتا ہے، وہ اسے احساس کی اُس سطح پر پیش کرپایا یا نہیں جہاں وہ پڑھنے والے پہ اثرانداز ہو، اسے سوچنے پہ، فکر کرنے پہ، جھنجھوڑنے پہ مجبور کر سکے۔ عابدہ رحمان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے افسانے میں منظرکشی کی کمی محسوس ہوئی۔ اس پہ اتنی محنت نہیں کی گئی، جتنی کرنی چاہیے تھی۔ جیئند خان کا کہنا تھا کہ افسانے میں زبردست ڈرامائیت ہے جو آخر میں جا کر کھلتی ہے۔ اس میں ایسے جوانوں کی کہانی پیش کی گئی ہے جو باہر جا کر چھوٹے موٹے کام کرنے پہ مجبور ہوتے ہیں لیکن اپنے اہلِ خانہ کو سچ نہیں بتاتے یا انھیں کچھ اور بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک شہری المیہ ہے۔ اس موقع پر پروفیسر بیرم غوری نے ایک بار پھر کہا کہ دیکھیے کہانی کی پوری فضا مصنوعی ہے، اس لیے ان نیچرل سی لگتی ہے۔ اس میں کہیں بھی فطری پن نہیں آسکا۔ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا کہ افسانے کی فضا اجنبی سی لگتی ہے۔ اور یہ جو ایک جگہ ذکر کیا گیا ہے کہ مریم جو مرکزی کردار کی بیوی ہے، اور فیکٹری میں کام کرتی ہے، وہ اسے ”باکردار“لگی۔ اس سے کچھ ایسا تاثر بنتا ہے کہ باہر کام کرنے والی ہر عورت باکردار نہیں ہوتی۔ کلیم نے کہا کہ افسانے کا عنوان بڑا زبردست اور چونکا دینے والا ہے۔ میرا خیال ہے افسانہ نگار نے اسے اچھا نبھایا بھی ہے۔ موضوع نہایت اہم اور خوب صورت ہے۔ عابدمیر نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ وسیم شاہد ہمارے معتبر افسانہ نگار ہیں، ان کے افسانوں میں ایک زبردست قسم کی ڈرامائیت ہوتی ہے اور وہ منٹو کی طرح فنشنگ اسٹروک پہ بڑا دھیان دیتے ہیں۔ آخری فقرے یا آخری پیراگراف میں کہانی کو کھولتے ہیں یا قاری کو چونکانے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہاں اس افسانے میں یہ عناصر نظر نہیں آتے یا ممکن ہے میں اس تک پہنچ نہیں پا رہا۔ حتیٰ کہ کردارسازی بھی اس طرح نہیں ہو پائی۔ جیسے مریم کا کردارکہانی میں غیرضروری سا لگتا ہے، اس کے بغیر بھی کہانی مکمل ہو سکتی تھی یا پھر اس کا جواز پیدا کیا جاناچاہیے۔ اسی طرح بس میں موجود جوان جو افسانے کا ضمنی کردار ہے، اس کے ڈائیلاگ تین پیراگراف پہ مشتمل ہیں، وہ مسلسل بولے چلا جاتا ہے، اس دوران نہ کھانستا ہے، نہ کھنگارتا ہے، نہ یہاں وہاں دیکھتا ہے۔ اتنے طویل ڈائیلاگ پڑھتے ہوئے قاری کی سانس اکھڑ جاتی ہے۔ اس میں وقفے کی ضرورت ہے۔ اور سب سے اہم بات کہ جو جدیدافسانے کی جو بنیاد ہے، جسے وحدت ِ تاثر کہا جاتا ہے، وہ بھی اس افسانے میں مفقود ہے۔ افسانہ اپنے اختتامیے میں ایک تاثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں رہا۔ یا ممکن ہے مجھے ایسا لگا ہو۔ لیکن بہرحال یہ نسبتاً ایک کمزور پلاٹ اور کمزوربیانیے کا افسانہ ہے۔ مصنف کو اسے دوبارہ دیکھنے اور کہانی کو ازسر تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

آخر میں مصنف نے اس پہ بات کرتے ہوئے کہا تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے پہلی مرتبہ ایسی کسی علمی محفل میں تنقید کے لیے افسانہ پیش کیا ہے۔ اور میں اس بات کا قائل ہوں کہ لٹریچر میں تنقید ہونی چاہیے، بے پناہ ہونی چاہیے اور کھل کر ہونی چاہیے۔ آپ احباب نے جن نکات کی طرف توجہ دلائی ہے، انھیں میں یقینا دوبارہ دیکھوں گا اورنظرثانی کروں گا۔ مجھے اس مجلس سے سیکھنے کا موقع ملا۔ جس کے لیے میں سنگت اکیڈمی کے دوستوں کا شکرگزار ہوں۔

اس کے بعد اویس اسدی نے اپنی نظم ’مست توکلی‘ پیش کی۔ جس پہ سامعین نے اپنی رائے دی۔ نظم پہ بات کرتے ہوئے عابد میر نے شاعر کو مبارک باد دی۔نظم بلاشبہ اپنے موضوع، اپنے آہنگ، اپنی تاثیر میں نہایت شاندار ہے۔ ایک تو اس کا پس منظر جس طرح بیان کرنا چاہیے تھا، اس سے مکمل انصاف کیا ہے۔ پھر اس موضوع کو نبھانے کے لیے بحر بھی نہایت رواں اور موضوع چنی ہے۔ جس سے شاعر کی شعری جمالیات سے آگاہی کا پتہ چلتا ہے۔ صرف ایک بات مجھے کھٹکتی ہے، جہاں دوسرے بند میں کہا گیا کہ تم نے ایسا خواب دیکھا جس کی تعبیر ممکن نہیں تھی۔ پروفیسر بیرم غوری نے کہا کہ نظم کی تفسیر کو بھی ذرا شاعرانہ سطح پر دیکھنا چاہیے۔ یہ نظم اپنے احساس اور تفسیر میں نہایت شاندار اور مکمل ہے۔ میں اس پہ شاعر کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

اس کے ساتھ تنقیدی سلسلہ مکمل ہوا۔ جس کے بعد عابد میر نے اپنا مضمون پیش کیا۔ یہ عابد ہ رحمان کی تازہ شائع شدہ کتاب ’محبت کی گواہی‘ کے پیش لفظ کے بہ طور لکھا گیا مضمون تھا، جو ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتابوں پہ تبصروں پر مبنی کتاب ہے۔ عابد میر نے اپنے مضمون میں عابدہ رحمان کی تبصرہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے انھیں ایک کامیاب اور نئے اسلوب کی حامل تبصرہ نگار قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے ادب میں ہی نہیں، اردو کے مجموعی ادب میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ کسی ایک مصنف کے تمام کام پر ایک ہی کتاب میں تبصرے یکجا کیے گئے ہوں۔ عابدہ نے شعوری طور پر اس کا اہتمام کیا۔ اور تبصرہ نگاری میں ایک نیا طرز بھی متعارف کروایا جسے تمثیلی تبصرہ نگاری کہا جا سکتا ہے۔ وہ کہیں انشائیے کی طرز اختیار کرتی ہے، کہیں مضمون کی، کہیں خط کی، کہیں مکالمے کی اور کہیں روداد کی۔ حتیٰ کہ اس نے تبصروں کے عنوانات میں بھی جدت اپنائی ہے۔ یہ طرز اس کے تبصروں کو تخلیقی جہت بھی عطا کرتا ہے اور انھیں منفرد بناتے ہوئے قابلِ توجہ بھی بناتاہے۔

۔مضمون کے بعد اجلاس کی قراردادیں پیش کی گئیں، جن کی منظوری اکثریتی رائے سے دی گئی:۔

۔1۔گزشتہ دنوں معروف ادیب اور دانشور اثیر عبدالقادر شاہوانی کااور پروفیسر عزیز مینگل کی بہو کا انتقال ہوا۔ یہ اجلاس ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔

۔2۔ یہ اجلاس تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی کامطالبہ کرتا ہے۔

۔3۔ یہ اجلاس کمر توڑ مہنگائی کی مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ عام انسان کو زندگی کی سہولیات فراہم کی جائیں۔

۔4۔سی پیک کی چیئرپرسن شپ بلوچستان کے سولین کے ہاتھ میں دی جائے۔

۔5۔سیاست میں گالم گلوچ کی بجائے سیاسی اخلاقیات کو ملحوظ رکھا جائے۔

آخر میں صدرِ مجلس پروفیسر جاوید اختر نے صدارتی کلمات میں تمام شرکا شکریہ ادا کیا۔ اس نے پیش کی گئی تخلیقات پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ وسیم شاید کا افسانہ گو کہ اپنی بُنت میں کمزور ہے، مگر بلاشبہ وہ ایک اچھا افسانہ نگارہے اور ہمیں یقین ہے آج کی مجلس میں پیش کی گئی آرا اس کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔ اویس اسدی کی نظم کو اس نے سراہا اور کہا کہ یہ بلاشبہ ایک شاندار نظم تھی، جس پرہم شاعر کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ عابد میر کے مضمون پر رائے دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ عابد میر نے عابدرہ رحمان کی تبصرہ نگاری پر تبصرہ لکھا،اور میرا خیال یہ ہے کہ جس طرح کا کام عابدہ رحمان نے کیا ہے، اس کی مثال صرف اردو ادب میں نہیں بلکہ یورپین ادب میں بھی نہیں ملتی۔ یہ اپنی طرز کا ایک انوکھا اور زبردست کام ہے۔ ہم اس پہ انھیں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

اس کے ساتھ ہی نشست اختتام پذیر ہوئی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے