ذہانت میرے لیے ایک نشہ ہے، اس کے ایک چٹکی مل جائے، ایک گھونٹ نصیب ہو جائے تو عجب سرور رگ و پے میں دوڑ جائے۔ کوئی ذہین تحریر، کوئی ذہین بات، جملہ، شعر، ساتھ، ارد گرد پھیلی تیز دھوپ جیسی دنیا سے بے نیاز کر کے کیسا دھت کردیتا ہے۔ دراصل خبر میں بے خبری کا اپنا ہی مزہ ہے۔ ہمارے اطراف چلتی پھرتی ڈگریوں کا ایک انبوہ ہے۔ یہ انبوہ رٹی رٹائی رسومات، حفظ کیے ہوئے احساسات کے منی کے مادھوؤں جیسا ہے۔ ان سے کوئی کیسے دل لگائے، کیسے نبھائے، کیسے ان کے ساتھ بتائے۔ لق و دق پھیلی اس تنہائی کے سفر میں اگر کوئی دلدار میسر ہے تو ایسی کتابیں۔ جیسی یہ ایک کھل جاسم سم جیسی میری فکر کے رنگ  آلود کواڑوں کو اپنی فطری اور فکری ذہانت کے وجدان سے کھولتی ضیاء المصطفےٰ ترک کی ”شہرپسِ چراغ“۔۔۔

اپنی فقیری میں امیر، اس کتاب کے طور طریقے ہی الگ ہیں۔ نہ جانے یہ اس کے خالق ضیاء المصطفےٰ ترک کی خود داری تھی یا انکساری، بے نیازی تھی یا اپنے اندر کا اعتماد کہ نہ عرضِ حال (پیش لفظ) میں اپنے بارے کو ئی تمہید باندھی اور نہ ہی اس کے قد قامت کے بارے فیصلہ سنانے کی کاوش میں ادب کی قد آور آرا کو زحمت دی، درواز ے کھٹکھٹائے، درخواستیں گزاریں  بلکہ جو کچھ تھا بڑی انکساری سے دھر دیا سامنے سب کے۔

یہ سب کچھ۔۔ عقیدوں کی سنہری پگڈ نڈیوں،  یادوں کے دھانی کھیتوں، مرادوں والے چوباروں، علم و فن کے باشرف میناروں اور اپنی منزل کی طرف سر پٹ بھاگتے راستوں والا شہر ہے، ضیاء ترک کا احوال ہے، ان کا اصل تعارف ہے، ان کے وسیع وعریض فکری افق کی حیران کن حیرانیاں ہیں، گہری بصیرت، ذہین جدت اور نیاز مندانہ کلاسیکیت کی ست رنگی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس سست رنگی کا مزاج جتنا فقیرانہ ہے  انداز تخاطب اتنا ہی شاہانہ۔

یہ جو شہر ہے پس چراغ۔۔۔ اس کی سجاوٹ اور بناوٹ کے اجزائے ترکیبی وہی ہیں جو خوبصورت کلام کے اچھے شعر کے ہوتے ہیں کہ انہوں نے اس کی تعمیر میں لے،آہنگ، مضامین، تراکیب، تشبیات، Diction, Imaginationسب کو یکجان کر کے گوندھا ہے، تب ان اچھوتی لکھوری اینٹوں سے بنی عمارتوں کی سر بلند عمارتیں اور شاہراہیں تعمیر کی ہیں۔ میں اس کی پر پیچ گلیوں سے گزری تو جگہ جگہ رک کے نذرانے گزارنے پڑے کہ ضیا ترک کی فکری و علمی بصیرت کے نقش ہر بام و درپہ کندہ نظر آئے۔

مرے ریشوں کا ترتیب آرا ہونا

زمانوں تک

مرالمحہ بہ لمحہ ریشوں سے تاگوں میں بٹنا

وہ تکوین جہاں کے کارخانے میں

زمان کی چرخیوں پر مجتمع ہونا

مری تخلیق کا ہر مرحلہ میری نظر میں ہے

 

مجھے معدوم سے موجود ہوجانے کا منظر یا د ہے اب  تک (خود نوشت)

 

یہ نظم گویا علم و فکر کا Colageہے وہ کولاژ  جس میں بڑی چابکدستی سے ”گُن“ کی حقیقت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ کے، مختلف مناظر ایک دوسرے پر چسپاں کر کے اپنی گہری بصیرتوں کا وہ شاندار شاہکار پیش کیا ہے کہ ہر بند اپنے اندر فکر و فہم کی ایک کائنات سمیٹے ہوئے ہے۔ نظم کی بیئت، لفظیات اور موضوع تینوں اکائیاں باہم جذب ہو کے شاعر کی قادر الکلامی، فکری  اڑان اور شوکت اظہار پردلیل بن گئی ہیں۔ اور یہی دلیل ضیاء ترک کی شناخت بن کے ”شہر پسِ چراغ“ کے ہرورق پر اپنی مہر ثبت کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ماریو کا ایک جملہ ذہن میں محفوظ ہے جو کہیں پڑھا تھا کہ ”جو لوگ اپنی لگن سے سرفراز ہیں وہ اس کے تخلیقی تجربہ کو ہی اپنا انعام گردانتے ہیں“

ضیا ترک کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہے وہ اپنی لگن سے سرفراز شہرت کی تگ ودو سے بے نیاز اپنے تخلیقی تجربہ میں یوں مست ومگن ہیں جیسے یہی ان کی کل کائنات ہے۔یہی وہ جذب دروں ہے جس نے اس شاعری کو ایسا وجدان عطا کیا ہے کہ جس خیال کو چھوا وہ جیسے جی اٹھا،جس لفظ کو۔۔۔ بوسیدہ سے بوسیدہ لفظ کو برت لیاوہ نیا نیا سا ہو کے دمک اٹھا۔

 

جہاں پانی میں ست رنگے بھنور پڑتے ہیں

لہریں سانس لیتی ہیں

جہاں ساحل کی ٹھنڈی ریت پر

کچھ سیپیاں اوندھی پڑی ہیں

نم ہوائیں، ڈوبتے سورج کے پس منظر میں

روشن آسمانوں سے اترتی ہیں

تو کچھ بیتے ہوئے لمحے

چراغوں کی طرح، آنکھوں میں آکر ٹہر جاتے ہیں

گزشتہ روز و شب کی اوٹ سے

مانوس سی آواز کوئی

یک بیک تقسیم ہوتی ہے

ہمیں اک ساتھ رہنا ہے

ہمیں اک ساتھ رہنا ہے

جتنا موثر اور سحر انگیز آغاز ہے نظم کا اس سے بھی کمال اس کا اختتام کہ یوں لگا اس کے آخری دو مصرعوں پر پہنچتے اسی جیسے بہت خوبصورت خواب اچانک آنکھ کھل جانے سے کرچی کرچی ہوجائے۔ دیکھے ذرا یہ دل میں ٹوٹ کے بکھرنا اس نظم کا:

اچانک آئینہ گرتا ہے

گر کر ٹو ٹ جاتا ہے۔             (خواب گزشت)

خواب گزشت کا عنوان اور اس سرگزشت کے ہر مہکتے ہوئے گنج سے قاری کا اسی عالمِ جذب کو محسوس کرتے ہوئے گزرنا جو شاعر کا ہے اور پھر حقیقت کی کرچیاں اور ان ساری کرچیوں کو قاری کا اپنے لہومیں دوڑتے محسوس ہونا، کمال فن اور کیا ہے؟ ”قادر الکلامی اور کس کو کہتے ہیں؟۔یہ  قادر الکلامی یقینا ضیا ترک کے اردو کے ساتھ فارسی، انگریزی اور دیگر زبانوں پر دسترس اور علم کو جذب کر لینے کی بے پناہ صلاحیت کی عطا ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ ضیا ترک کی شاعری قدیم اور جدید کا ایک بے حد حسین امتزاج ہے۔ وہ زبان کے اصول وقواعد قوافی اورردیف  عروض و بحور کی پابندی کے حوالے سے قدیم اور تمام قواعد پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔ مگر الفاظ کی در وبست اور تراکیب کی تراش خراش تقکیدی نہیں بلکہ تخلیقی ہے، وہ پرانے الفاظ کو برتے ہوئے اسالیب کو اپنے فکری و جدان میں متھ کے حکمت کے چاک پر یوں ڈھالتے ہیں ہر تخلیق اپنے انوکھے حسن سے مسحور کردیتی ہے۔

صبح نہیں ہوئی ابھی، صبح بخیر صاحبا

رنج کی رات تھی گئی، صبح بغیر صاحبا

چشم کی کار گاہ کی، حسن کی بارگاہ کی

آپ کی خواب گاہ کی، صبح بغیر صاحبا

تاب نہ لاؤں کیا عجب،دیکھ نہ پاؤں کیا عجب

میری طرف سے پیشگی، صبح بخیر صاحبا

کیا حسنِ اظہار ہے کہ جیسے جاڑوں کی دھوپ برف کھائی ہریالی سے مخاطب ہو۔ جیسے لائیلیک کی کاسنی خوشبو حواس کو معطرکر رہی ہو۔ کیا سادہ کاری اور صناعی ہے۔ دراصل یہ سادہ کاری اورصناعی ضیاء ترک کی شاعری کے بدن پر زمرد سے ٹکے لباس کی طرح سجی ہے۔ ہم نیا گراکو دیکھتے ہیں تو مہبوت ہو کے بس اس حسن کو تکتے رہ جاتے۔ اس حسن کی تصویر کشی کے لیے لغت ذہن کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ایسے ہی ”شہر پس چراغ“ کے آبشار اپنے حسن کے شکوہ میں لپیٹ لے جاتے ہیں، اور الفاظ گم سم سے ہوجاتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ کوئی بے پنا ہ رشتہ اور بے پناہ تعلق جڑ جاتا ہے اس شاعری سے۔

 

نگاہ وار تعلق ہے تیرے میرے بیچ

سوبے شمار تعلق ہے تیرے میرے بیچ

یہ اور بات کئی منزلوں کا فاصلہ ہے

یہ رہگزار تعلق ہے تیرے میرے بیچ

 

کہیں رنج ہے کسی چشم ناز سے رسم و رہ کی شکست کا

سر رہ  کہیں درنیم وا کا معاملہ مرے ساتھ ہے

تھا جو مجھ میں اور میرے بھائیوں میں نزاع، سب ہے، بجا مگر

مرے پائیں باغ، محل سرا کا معاملہ مرے ساتھ ہے

 

پھر اسی دھن میں، اسی دھیان میں آجاتا ہوں

تجھے ملتا ہوں تو اوسان میں آجاتا ہوں

 

یہ گونجتی ہوئی موجودگی کسی کی تو ہے

سو کیا عجب اگر اظہار ہو رہوں میں بھی

نواح لفظ میں خود سے گریز کرتا ہوا

خدا نکر دہ دگربار ہو رہوں میں بھی

 

جانے کب سے یہی ترتیب لگا رکھی ہے

آج کی رات ستاروں کو بدل کر دیکھیں

 

ہیں کہاں خواب سرا ملک سبا، باغ عدن

کسی دن جسم سے باہر نہ نکل کر دیکھیں

 

چار اطراف یہ کب تک رہیں قانع آخر

کیوں نہ سمتوں میں ذرا ردو بدل کر دیکھیں

 

مری ہتھیلی، مری انگلیوں پہ آگیا ہے

تمہارا رنگ بدن، پیر ہن سے ہوتا ہوا

پہنچنے والا ہوں، سرنامہ پر لیے ترانام

میں لفظ لفظ دیار سخن سے ہوتا ہوا

 

عجب نہیں کہ زمانے سے پیچھے رہ جائیں

گھڑی سے وقت کی رفتار دیکھنے والے

یہ صرف چند مناظر ہیں، چند درہیں، چند گلیاں، چند کھیت کھلیان سبزہ زار ہیں اس فکر کے جس سے گزرتے ہوئے میں نے جگہ جگہ قیام کیا اور محبت کی نذر گزاری۔

”شہر پسِ چراغ“ ضیاء المصطفے ترک کی فکر کا وہ تاج محل ہے جس کی سجاوٹ دیدنی ہے۔ تراکیب کے جگمگاتے جھاڑ فانوس، فن میں زندگی کی موسیقی سموئے سات سروں والے حروف کے نقش ونگار،تخیل کے بلند بالا مینار، عقائد کے گیان و آتشی والے در، تعلی کے بجائے منکسر لب و لہجہ کے دور دور تک بچھے سبز و زار کسی بھی باذوق کے لیے جنت نگاہ وفردوس ہوش ہیں۔ اس کے ایک ایک نقش کو تو شاید کوئی ان جیسا فنکارہی  اجاگر کر سکے گا۔میں تو صرف اپنی حیرتیں اور محبتیں ہی نذر کر سکتی ہوں۔ ضیاء المصطفےٰ ترک!اس ذہین تخلیق کے ہر گھونٹ کا نشہ نادیر رہے گا۔ مرحبا!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے