کبھی سمّو کی خواب آلود آنکھوں سے

گری تھی جو تجلی تیرے سینے پر

اگر وہ طور پر گرتی تو جل کر راکھ ہوجاتا

 

وہ کیسا حسن آفاقی تھا

جس تمثیل کی خاطر

نجانے کیسے کیسے حسنِ فطرت کے فسوں انگریز نقشے کھینچتا تھا تُو

تری رمز آشنا آنکھوں نے کیسا خواب دیکھا تھا

نہ تھی جس کی کوئی تعبیر ممکن

 

نجانے کتنے رنگوں کو سمیٹا

کتنے احساسات کا میلہ لگایا

پرندے، پھول، بادل، چاند، جگنو، تتلیاں، لعل و گہر، کہسار، صحرا، پیڑ، چشمے (نخلِ طوبہ، آبِ کوثر)۔

استعارے لے کے آیا

پروہ کیا تصویر تھی تیرے تخُیل میں

 

یہ کس آغوش کی خواہش تھی تیری بے قراری کو

کہ جو کاہاں سے لے کر

سندھ کے بے انت صحراؤں کی بانہوں تک نہیں ملتی

 

زُباں کو کس طرح اس بات پر قائل کیا تُو نے

کہ اِس صحرا برابر تشنگی کو کم نہیں کرنا

نظر کو مست رکھنا ہے

مگر ساغر کا پیکر نم نہیں کرنا

 

گراں لمحہ تھا وہ کیسا

جسے تو عمر ساری تیاگ کر بھی جی نہیں پایا

وہ کیسا زخمِ لامحدود تھا

جس کو کہ تارزلفِ جاناں سی نہیں پایا

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے