چند برس ہی ہوا کرتے ہیں

دوڑ لگائیے

آگے نکلیے

اور جان جائیے

اچھل کود بے معنی ہوا کرتی ہے

چار لفظ ہی لکھ لیجیے

کچھ کتابیں پڑھ اور چھاپ لیجیے

دنیا کو الٹ پلٹ دیکھیے

بارشوں میں چھینٹے اڑاتے ہوئے

ان اطراف کا پھیرا لگائیے

جہاں آپ کی آوازیں

ہمیشہ کے لیے خاموش ہوچکیں

 

بچوں اور پھولوں

موسموں اور خوابوں میں

تلاش کیجیے

اسے جو معدوم ہوگیا

 

کلام کیجیے

خود کلامی کی طرح

راز کو رازمت جانیے

بیان فرمائیے

اور اس کی سزا کا لطف لیجئے

 

زندگی میں گھمسان کا رن پڑا ہے

کود نہیں سکتے

تو اپنے جانبازوں کو کمک ہی بھیجتے رہیے

 

رایگانی کا دکھ

حصول کی سرشاری

ایک وقت میں

ایک سی لگنے لگتے ہیں

جلدی کیجئے

 

ایک سے نوے تک

گنتی بس اتنی ہی ہے

 

وہ چہرہ جو آپ کے خیالوں ہی میں بنارہا

اور جس کی کھوج میں آپ نے

لاتعداد چہروں سے استفادہ کیا

اسے بھول جائیے

 

معافی طلب کیجئے

اور اس کے آنسو پونچھ کرگلے سے لگائیے

اُسے۔۔جو موجود رہا ہے آپ کے لیے

کسی اوٹ میں گزار لیجئے

وہ جاں فزا لمحے

جو ابھی گزارے جاسکتے ہیں

 

اور پھرنکل جائیے

منظر سے

 

چند حافظوں میں

کچھ عرصہ زندہ رہنے کے لیے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے